عوام کو ریلیف دینا اپوزیشن کے آزادی مارچ اور دھرنے سے نمٹنے کی بہترین حکمت عملی ہوسکتی ہے
وزیراعظم کا اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں ناجائز اضافہ کا سخت نوٹس اور وفاقی کابینہ کا اپوزیشن تحریک سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومتوں کو ٹاسک
وزیراعظم عمران خان نے مصنوعی طور پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کا سخت نوٹس لیا ہے اور منافع خورں‘ ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کریک ڈائون کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ وزیراعظم کو اس سلسلہ میں جمعۃ المبارک کے روز اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جائیگی۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ کسی کو مصنوعی طور پر قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرنے کیلئے ذخیرہ اندوزی کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 2؍ اکتوبر کے اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ معیشت کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کابینہ کے ارکان پر زور دیا کہ ملکی حالات بالخصوص معاشی حالات اور معیشت کی بہتری کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات اور انکے ثمرات کے بارے میں عوام کو مسلسل آگاہ رکھا جائے۔ دوران اجلاس وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ 89‘ ادویات کی قیمتوں میں کمی لانے کی تجویز کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیگی۔ وزیراعظم نے اس امر کی ہدایت کی کہ زندگی بچانے والی ادویات کی مناسب قیمت پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کابینہ نے سی ڈی اے کے تنظیم نو کے پلان کی بھی منظوری دی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ تنظیم نو کا مقصد ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور وفاقی دارالحکومت میں شہریوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ سے نمٹنے کا لائحہ عمل صوبائی حکومتوں پر چھوڑا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں صوبائی حکومتوں نے مدد مانگی تو وفاق ضرور مدد فراہم کریگا۔ انکے بقول ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔ مولانا چور بچائو اور جیل میں قید قیادت کو بچانے کے ایجنڈے پر ہیں۔ ہم انکے کھوکھلے نعروں سے ڈرنے والے نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لنگر پالیسی کے تحت ملک بھر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت لنگر خانے بنائے جائینگے۔
یہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اس معاشرے کے بگاڑ کا باعث بننے والی اقتصادی‘ معاشی اور سماجی ناانصافیوں کے تدارک کی زیادہ فکر مندی ہے۔ انہوں نے عوام کو ان ناانصافیوں سے نجات دلانے اور کرپشن فری معاشرہ کی تشکیل کے جذبے کے تحت ہی 23 سال قبل سیاست کی خاردار وادی میں قدم رکھا تھا اور تحریک انصاف کے نام سے اپنی پارٹی تشکیل دی چنانچہ وہ اپنی پارٹی کے نام کی مناسبت سے ہی معاشرے اور سسٹم کے سدھار کی کوششوں میں مگن ہوگئے۔
عوام سلطانی جمہور میں اقتدار کی باریاں لینے والے حکمران طبقات اور انکی حکومتی پالیسیوں سے اپنے روزمرہ کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور امن و امان کے بڑھتے ہوئے مسائل سے بلاشبہ عاجز آچکے تھے اور انکی مایوسیوں میں اضافہ ہورہا تھا اس لئے انہیں 2011ء کے انتخابی عمل میں عمران خان کے تبدیلی کے ایجنڈے میں کشش نظر آئی اور انہوں نے انکے اور انکی پارٹی کے ساتھ اپنے اچھے مستقبل کیلئے امیدیں وابستہ کرلیں۔ بالآخر اس ایجنڈے کو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی اور عمران خان روایتی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابل ایک مقبول قومی لیڈر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ اگرچہ عمران خان کو 2013ء کے انتخابات میں وفاقی حکومت تک رسائی حاصل نہ ہوسکی تاہم انکی پارٹی ایک بڑی اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی جبکہ خیبر پی کے میں انہیں جماعت اسلامی کی معاونت سے حکومت تشکیل دینے کا موقع بھی مل گیا۔ انکی یہ حکومت عوام کیلئے بیرومیٹر ثابت ہوئی جس کی اختیار کردہ عوام دوست اور منصف معاشرہ کی راہ ہموار کرنیوالی پالیسیوں نے عمران خان کا ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے قد کاٹھ مزید بلند کر دیا جبکہ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے انتخابی دھاندلیوں اور حکومتی کرپشنوں کیخلاف منظم تحریک لانگ مارچ اور دھرنے کی صورت میں چلا کر عوام کا مزید اعتماد حاصل کیا جنہوں نے ’’سٹیٹس کو‘‘ والے حکمرانوں کے مسلط کردہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ کرپشن اور توانائی کے سنگین بحران سے متعلق مسائل سے نجات حاصل کرنے کیلئے بھی عمران خان کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیا اور 2018ء کے انتخابات میں انکے منشور اور ایجنڈے کو پذیرائی بخشتے ہوئے انہیں خیبر پی کے ہی نہیں‘ وفاق اور پنجاب میں بھی حکمرانی کا مینڈیٹ دے دیا جو یقیناً انکے تبدیلی کے ایجنڈے کی کامیابی تھی۔
عوام نے انکے ساتھ جس وارفتگی سے اور جتنی زیادہ توقعات وابستہ کی تھیں‘ اسکے پیش نظر انہیں اپنے اقتدار میں بہت بڑے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے سرعت کے ساتھ عہدہ برأ ہونا تھا جس کیلئے انہیں اپنے جیسے ہی جذبے اور سوچ والی وفاقی اور صوبائی ٹیم کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی کرپشن فری سوسائٹی کیلئے بے لاگ اور بلاامتیاز احتساب کے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا اور کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنا اپنا ماٹو بنایا جس پر وہ اپنے اقتدار کا ایک سال پورا ہونے کے بعد بھی گامزن ہیں۔ انہوں نے بے شک کرپشن فری سوسائٹی کی راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ آج سابق حکمرانوں کی اکثریت نیب کے مقدمات میں سزائیں بھگت رہی ہے یا مقدمات کا سامنا کررہی ہے جس پر وزیراعظم‘ انکی حکومت اور نیب کے ادارے کو سیاسی انتقامی کارروائیوں کے الزامات کا بھی سامنا ہے اور وزیراعظم اس حوالے سے اپنے پارٹی منشور پر کسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں‘ البتہ انکے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ انکی حکومت عوام کے روٹی روزگار‘ غربت‘ مہنگائی کے گھمبیر مسائل اور عوامی فلاحی بہبود سے متعلق ترقیاتی کاموں کے معاملہ میں عوام کی توقعات پر پوری نہیں اترسکی اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ‘ ایک سال میں دو منی بجٹ لانے‘ ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مسلسل بڑھنے‘ حکومت کے پہلے قومی بجٹ میں متعدد نئے ٹیکس لگنے اور مروجہ ٹیکسوں میں اضافہ ہونے اور پھر نئے قرضوں کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے حکومتی فیصلوں کے نتیجہ میں عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری سمیت روزمرہ کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں جن میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے تو وزیراعظم عمران خان کے ساتھ عوام کے رومانٹسزم میں بھی بتدریج کمی آنے لگی ہے۔
بے شک ملک کے ابتر اقتصادی حالات اور ڈالر کے نرخ بڑھنے نہ دینے کیلئے سابق حکومت کے اٹھائے گئے مصنوعی اقدامات کے باعث عوام کو مہنگائی کے جھٹکے لگنا فطری امر تھا تاہم اگر حکومتی ٹیم سمجھ بوجھ کے ساتھ صورتحال کا مقابلہ کرتی اور عوام کی اچھے مستقبل کی امیدیں توڑنے والے بیانات اور پالیسیوں سے گریز کرتی تو عوام کی مایوسیوں کا اتنی جلدی راستہ ہموار نہ ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان بذات خود تو عوام کے روزمرہ مسائل بڑھنے پر فکرمند ہوتے ہیں اور اصلاح احوال کے اقدامات اٹھانے کی حکومتی ٹیم کو تلقین بھی کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اشیائے ضروریہ کے نرخوں کے حوالے سے احکام صادر کئے ہیں مگر وفاقی اور صوبائی سطح پر عوام کے مسائل کے فوری ازالہ کیلئے کسی قسم کی عملیت پسندی اور فعالیت نظر نہیں آتی۔ اس طرح جب وزیراعظم کی ہدایات کے باوجود ادویات اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتے نظر آتے ہیں تو اس سے عوام بھی زچ ہوتے ہیں اور احتساب کے عمل سے عاجز آئی اپوزیشن کو بھی حکومت کیخلاف عوامی جذبات ابھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پٹرولیم مصنوعات‘ گیس اور بجلی کے نرخ بھی تقریباً ہر ماہ بڑھانے کی سابقہ حکومتوں کی پالیسی برقرار رکھی گئی ہے جس کے باعث عوام کی اپنے مسائل میں ریلیف ملنے کی توقعات بھی ختم ہونے لگی ہیں جو لامحالہ حکومت کیلئے پریشان کن صورتحال پر منتج ہو سکتی ہیں۔
وزیراعظم نے بلاشبہ ایک مدبر قومی لیڈر کی حیثیت سے عالمی کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم ملک کے اندر عوامی اعتماد کے سہارے اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کیلئے انکی حکومت کو گوناںگوں عوامی مسائل بھی اب ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہیںتاکہ اپوزیشن کو اس کیخلاف چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ اس کیلئے وزیراعظم کی جانب سے اشیائے ضروریہ اور ادویات کے نرخوں میں اضافہ روکنے کی محض ہدایات جاری کرنا ہی کافی نہیں‘ اس کیلئے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔ اسکے برعکس پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہ دیکر اور پھر ایک سال کیلئے بجلی فی یونٹ 53 پیسے مہنگی کرکے عوام پر مزید اقتصادی بوجھ ڈالنے کا اقدام اٹھایا گیا جس کے یقیناً حکومتی گورننس پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ مولانا فضل الرحمان کو انہی حالات میں عوام کا اضطراب حکومت مخالف تحریک کیلئے کیش کرانے کا موقع مل رہا ہے جس کیلئے وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی آزادی مارچ اور دھرنا میں شریک ہونے پر قائل کرچکے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک سے نمٹنے کا ٹاسک بے شک صوبائی حکومتوں کو سونپا ہے جس میں سندھ حکومت تو خود مولانا فضل الرحمان کی تحریک کا ساتھ دینے کا عندیہ دے رہی ہے۔ اگر خیبر پی‘ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے مارچ کو روکنے کی کوئی سخت گیر حکمت عملی طے کی گئی تو اس سے ملک میں خلفشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہوگا اس لئے آزادی مارچ اور دھرنے سے نمٹنے کی بہترین حکمت عملی عوام کو ریلیف دینے کی ہے۔ اگر حکومتی اقدامات سے اسکی اقتصادی اور مالی پالیسیوں کی سمت بھی درست ہو جائے اور عوام کو اپنے روزمرہ کے مسائل میں ریلیف ملنا شروع ہو جائے تو اپوزیشن کی کوئی تحریک اور غیرجمہوری عناصر کی کوئی سازش انکی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وزیراعظم کو عوام کو ریلیف دینے اور انکے مسائل کم کرنے سے متعلق اپنی ہدایات کسی صورت نظرانداز نہیں ہونے دینی چاہئیں تاکہ حکومتی گورننس پر کسی قسم کا حرف نہ آئے اور جمہوریت کی گاڑی بھی استحکام کی منزل کی جانب گامزن رہے۔