مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سرفروشانہ جدوجہد جاری
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل جاری بھارتی مظالم میں کرفیو کے 72 روز بھی کسی قسم نرمی نہیں کی گئی اور فوجی محاصرہ بدستور جاری ہے جبکہ مواصلاتی ذرائع مسلسل معطل ہیں۔ مریض ہسپتالوں میں نہیں پہنچ پا رہے اور انہیں ادویات تک دستیاب نہیں۔
مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کے عوام کو رام کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کر رہی ہے۔ درگاہ اجمیر شریف کے سجادہ نشین سید ناصر الدین چشتی کی سربراہی میں آل انڈیا صوفی سجادہ کونسل کے علمائے کرام زمینی حقائق کا پتہ لگانے کے لیے وادی کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ وفد میں بھارت کی تمام بڑی بڑی درگاہوں کے صوفیائے کرام شامل ہیں۔ /5 اگست کے بعد سے یہ پہلا وفد ہے جس کی ریاستی حکومت نے میزبانی کی اور اسے عوام تک رسائی کی اجازت دی لیکن ان صوفیا اور مشائخ کی حالت اس وقت مضحکہ خیز بن گئی جب سری نگر کی درگاہ حضرت بل میں ان کا استقبال بھارت اور مودی مخالف نعروں سے کیا گیا۔ انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ دریں اثنا بھارت کی دو مشہور محترم شخصیات بھارتی سپریم کورٹ کی سینئر وکیل نتیا رام کرشنن اور دہلی سکول آف اکنامکس میں سوشیالوجی کی پروفیسر نندنی سندر نے 5 سے 9 اکتوبر تک مقبوضہ کشمیر کے دورے کے بعد جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں واضح لکھا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ایک شخص بھی مودی حکومت کے /5 اگست کے فیصلے سے خوش نہیں ہے بلکہ ہر کشمیری بھارت سے آزادی چاہتا ہے۔ علماء و صوفیا اور بھارت کی چوٹی کی قانون دان خواتین کے دورے اور ان کی رپورٹوں کے بعد کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ بی جے پی کی مودی سرکار نے دستور کی دفعات 370 اور 35 اے منسوخ کر کے آئین و قانون اور بین الاقوامی معاہدوں اور عالمی اداروں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ آج پانچ اگست کے فیصلے کو 72 دن ہو گئے ہیں لیکن حالات معمول پر آنے کی بجائے تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ گزشتہ ستر سال میں پہلی بار اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اتنی توجہ ملی ہے ۔ دُنیا کے ذرائع ابلاغ، کشمیریوں کی حالتِ زار کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ خود انصاف پسند بھارتی نمائندگان مودی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلے کو مہلک غلطی قرار دیتے ہوئے اسے ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مودی اور ان کے ساتھیوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ کشمیری عوام نے اس غیر قانونی اور غیر آئینی فیصلے کی جس عزیمت کے ساتھ مخالفت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ کشمیریوں کے جذبے کو دیکھ کر یقین ہونے لگا ہے کہ اب اُن کی آزادی زیادہ دور نہیں۔