بدھ ‘ 16؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 16 ؍ اکتوبر 2019 ء
شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ میڈلٹن کا پاکستان پہنچنے پر ریڈ کارپٹ استقبال
برسوں پہلے بھی ایک شہزادی پاکستان آئی تھی جس کا نام ڈیانا تھا۔ پھر اس کے بعد شہزادہ چارلس، شہزادی کمیلا پارکر کے ساتھ پاکستان آئے۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت اور محبت شہزادی ڈیانا کو ملی۔ لاکھوں لوگ حقیقی آنکھوں سے ا یک خوبصورت ، نرم دل شہزادی کو اپنے درمیان دیکھ کر خوشی سے نہال ہو گئے۔ یہ روایتی کہانیوں والی پریوں والی شہزادی لگ رہی تھی جس کی مسکراہٹ اس کے کروڑوں مداحوں کو آج بھی نہیں بھولی۔ اب ایک مرتبہ پھر گزشتہ روز پاکستان کی سرزمین پر ایک اور خوبصورت شاہی مہمان جوڑے نے قدم رکھے۔ ان میں سے ایک شہزادہ ولیم اسی حسین شہزادی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کے بیٹے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ شہزادی کیٹ میڈلٹن ہیں۔ یہ حسین جوڑا چار روز پاکستان میں قیام کرے گا یہاں تاریخی اور سیاحتی مقامات کی سیر کے علاوہ یتیم بچوں کی قیام گاہ اور تعلیمی و فلاحی اداروں کا بھی معائنہ کرے گا اور اہم شخصیات کے علاوہ وزیر اعظم سے بھی ملاقات کریگا۔ اس موقع پر ملک کے بڑے شہروں میں رکشائوں پر خاص طور پر پاکستان اور برطانیہ کے پرچم لگائے جائیں گے۔ جو پاکستان اور برطانیہ کی دوستی کا پرمسرت اظہار ہو گا۔ شہزادی کیٹ میڈلٹن نے کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان آمد پر مکمل پاکستانی لباس یعنی شلوار قمیض پہن رکھی تھی جس سے ان کی شخصیت زیادہ پروقار نظر آ رہی تھی۔ ان کی اس ادا نے بھی پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ لگتا ہے انہیں معلوم ہے ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘ والا محاورہ کتنا پراثر ہوتا ہے۔ اہل پاکستان معزز مہمانوں کو کھلے دل کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان کے اس دورے سے عالمی سطح پر پاکستان کے حوالے سے جو منفی خطرناک قسم کا پراپیگنڈا ہوتا ہے اس کا اثر بھی زائل ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭
دنیا بھر میں یوم خوراک بنایا گیا
اس موقع پر دنیا بھر کی بات نہیں کرتے مگر ہمارے ملک میں اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں میں سرکاری سیمینارزمیں مقررین نے خوب زور و شور سے خوراک کے حوالے سے علم و فن کے دریا بہا دئیے۔ شکر ہے سامعین اس سیلاب میں بہہ نہیں گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اپنے پیٹ بھرے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں قلت خوراک کے حوالے سے بھاشن دے رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کا خود کبھی بھوک سے پالا نہیں پڑا ہوتا۔ یہ حضرات کھانا تو کھانا‘ پینے کا پانی تک اس ملک کا پینا پسند نہیں کرتے جہاں بیٹھ کر عیش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آج تک 72 برس ہو گئے ملک سے بھوک کا خاتمہ نہیں کر سکے۔ ہر شہری کو مناسب خوراک کی مناسب قیمت پر فراہمی حکومتوں کا کام ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں۔ سوائے ہماری حکومتوں کے۔ ہمارے مراعات یافتہ یا کھاتے پیتے لوگ جتنا کھانا ضائع کرتے ہیں ایک سروے کے مطابق اس سے لاکھوں غریب کم وسیلہ افراد کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں لاکھوں نہیں کروڑوں عورتیں بچے اور جوان غذائی قلت یعنی غیر معیاری غیر متوازن خوراک اور کم خوراکی کاشکار ہیں۔ اس عالمی یوم خوراک پر اگر ہم ان کے مسائل کم کرنے کی کوشش نہیں کرتے انہیں ارزاں نرخوں پر متوازن اور معیاری خوراک فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر یہ دن منانے کا ہمیں کیا فائدہ ۔ تھر اور چولستان کو چھوڑیں ، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں غذائی قلت کا یہ عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ ہم ہیں کہ شادی بیاہ ہی نہیں ہوٹلوں میں بھی آدھے سے زیادہ کھانا ضائع کر دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
دوحہ: پاکستانی پہلوان انعام بٹ نے ورلڈ بیچ گیمز میں گولڈ میڈل جیت لیا
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی والی بات انعام بٹ پر سو فیصد فٹ آتی ہے۔ واقعی وہ ہمارے لیے اللہ کا انعام ہیں جو یہ انعام یعنی گولڈ میڈل جیت کر لائے ہیں۔ ورنہ بھولا برادران کے بعد روایتی کشتی جسے دیسی دنگل کہہ لیں یا ریسلنگ کا میدان سُونا ہو گیا تھا تو ایسے میں یہ جدید بیچ ریسلنگ، آرم ریسلنگ یا کک ریسلنگ جیسے فن پہلوانی میں نام کمانے کا کون سوچتا۔ مگر ہماری نئی نسل نے اپنی مدد آپ کے تحت ان مقابلوں میں بھی بے شمار رکاوٹوں کے باوجود نام کمایا اور آج عالمی سطح پر ہمارے پہلوان کشتی کے ان مقابلوں میں گولڈ میڈل لے کر وطن کا نام روشن کر رہے ہیں۔ رہی بات ہمارے محکمہ کھیل کی تو اردو زبان کی ابتدا سے لے کر آج تک جس طرح ہمارے لکھاریوں کے خواہ نظم کے ہوں یا نثر کے حواس پر عورت سوار ہے اسی طرح ہمارے محکمہ کھیل کے حواس پر صرف کرکٹ کا بھوت سوار ہے جس کی وجہ سے بے شمار ایسے کھیل جن میں پاکستان کا نام تھا ختم ہو کر رہ گئے۔ سکوائش، ہاکی، پہلوانی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مگر اب باکسر وسیم اور پہلوان انعام بٹ کو دیکھ کر لگتا ہے ہماری نئی نسل ازخود اپنے ملک کی محبت میں وہ قرض بھی اُتار رہی ہے جو محکمہ سپورٹس کے ذمہ تھے۔ اس جیت پر پاکستانی انعام بٹ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پشاور میں آٹے کی بوری 500 روپے مہنگی ہو گئی
ہمارے ملک میں تو لگتا ہے منافع خور مافیا عوام سے منہ کے نوالہ تک چھین لینے کے چکر میں ہے۔ اوپر سے حکومت نے آٹا افغانستان لے جانے کی اجازت دے دی ہے۔ خیبر پی کے میں 2 روز میں 85 کلو آٹے کی بوری کی قیمت 500 روپے بڑھ گئی ہے۔ اب حبیب جالب ہوتے تو شاید یہ اس بار آٹے پر کوئی نئی نظم لکھتے۔ دل پھٹتا ہے جب جہانگیر ترین جیسے نرم دل رہنما بھی عوام کو مزید صبر کا کہہ رہے ہیں۔ بھلا بھوک کا صبر و قرار سے کیا رشتہ۔ یہ سارا شاخسانہ ہے افغانستان کے لیے تجارت کے نام پر رعایتوں کی بھرمار کا۔ اب طورخم اور دیگر بارڈر سے آٹا بڑے اطمینان سے افغانستان جا رہا ہے اور خیبر پی کے کے عوام روٹی روٹی کر رہے ہیں۔ وہاں کے سپیکر صاحب کا ہی ارشاد ہے کہ عوام مہنگائی پر شور کرنے کی بجائے ایک روٹی کم کر دیں۔ یعنی 2 روٹی کھانے والا ایک کھائے۔ یہ اچھی منطق ہے۔ ابھی تو صرف ایک ہفتہ ہوا ہے کہ حکومت نے افغانستان آٹے کی سپلائی کی اجازت دی ہے اور یہ حال ہے۔ بعد کے حالات کی منظر کشی بھلا کون کرے۔ اس وقت تو…؎
مٹن اور دال کی قیمت برابر ہو گئی جب سے
یقین آیا کہ دونوں میں حرارے ایک جیسے ہیں
والی کیفیت خیبر پی کے میں نظر آ رہی ہے۔ خدا جانے اس موقع پر طوطیٔ سوات مراد سعید اور بلبل پنڈی شیخ رشید کچھ ارشاد فرمائیں گے یا عوام سے چھپتے پھریں گے۔