مولانا کا آزادی مارچ
بنانی ٔپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل کی حیثیت سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے تھے کہ راستے میں لوگوں نے" مولانا جناح زندہ باد" کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ قائداعظم نے کار کو رکوایا اور عوام کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا " مجھے مولانا مت کہو میں مولانا نہیں ہوں میں آپ کا سیاسی لیڈر ہوں مجھے صرف محمد علی جناح کہو"۔مفسر قرآن حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کی بھی مولانا حضرات سے کشمکش رہتی تھی یہاں تک کہ مولویوں نے ان کیخلاف کفر کے فتوے جاری کر دیئے مگر علامہ اقبال نے اپنا فہم اسلام تبدیل نہ کیا۔ علامہ اقبال نے مولانا کے بارے میں کئی اشعار لکھے چند قارئین کی نذر ہیں۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
دین کافر فکر و تدبیر جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
مولانا فضل الرحمان نے آج تک قائداعظم اور علامہ اقبال کے مزار پر حاضری نہیں دی اور نہ ہی انہوں نے کبھی اپنی کسی تقریر میں ان کو خراج تحسین پیش کیا جن کی وجہ سے وہ آزاد پاکستان میں مراعات حاصل کرتے رہے ہیں۔افسوس آج پاکستان میں ایک بھی حبیب جالب موجود نہیں ہے جو عوام کی زبان بن سکے اور ان کی تمناؤں کا بے باک اظہار کر ے لہٰذا آج پاکستان کے عوام بے بس اور لاوارث ہو چکے ہیں۔ حبیب جالب نے مولانا کے عنوان سے ایک لازوال نظم لکھی تھی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک میری تقدیر مولانا
نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے
یہی ہے جرم میرا اور یہی تقصیر مولانا
زمینیں ہوں وڈیروں کی مشینیں ہوں لٹیروں کی
خدا نے لکھ کے دی ہے یہ تمہیں تحریر مولانا
پاکستان میں علمائے حق موجود ہیں جو انتہائی قابل احترام ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام عوام تک پہنچا رہے ہیں اور عملی طور پر اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار رہے ہیں۔ نامور ادیب منفرد مزاح نگار مشتاق یوسفی نے کہا مجھے جو بھی مولوی صاحب ملے انہوں نے کہا یوسفی صاحب آپ داڑھی رکھ لیں یہ سنت ہے کبھی کسی نے یہ نہیں کہا جھوٹ نہ بولیں اور وعدہ پورا کریں یہ سنت ہے۔ مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی تقریریں کرتے ہیں مگر کبھی قرآن اور سنت کے بنیادی اصولوں کو اپنی تقریروں میں شامل نہیں کرتے۔ 2018ء کے انتخابات میں عبرت ناک شکست کے بعد وہ اضطراب کا شکار ہیں۔ انکی جماعت میں مایوسی اور بے چینی پھیل رہی ہے۔ اراکین جماعت کو پر اُمید رکھنے اور ان کا لہو گرم رکھنے کیلئے سیاسی سرگرمی ضروری ہوتی ہے لہٰذا انہوں نے آزادی مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ سیاست میں موزوں وقت کا انتخاب بہت اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ مولانا کی جماعت کے لیڈروں نے پاکستان کی آزادی کی تحریک کی مخالفت کی اور آج مولانا ایک منتخب حکومت کیخلاف آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ مولانا کے آزادی مارچ کے دو بڑے مقاصد ہیں پہلا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے قومی لٹیروں کو احتساب سے بچایا جائے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ منتخب حکومت اور پاک فوج کے درمیان جو مفاہمت پائی جاتی ہے، اس کو کسی طرح ختم کر دیا جائے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی عوامی تحریک چلائی گئی اس تحریک کے دوران قربانیاں تو غریب عوام نے دیں مگر اس تحریک کا فائدہ ہمیشہ ریاست کے طاقتور ادارے نے اُٹھایا۔ جنرل ایوب خان کیخلاف تحریک ایک انقلابی نظریاتی اور عوامی تھی جس کا فائدہ جنرل یحییٰ خان نے اُٹھایا اور وہ اس وقت اقتدار سے رخصت ہوا ، جب فوج کے اندر بغاوت ہوگئی اور عوام نے اسکے گھر کو نذرآتش کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کیلئے یہ تاریخی اور سنہری موقع تھا کہ وہ سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے پاکستان کی فکری اور نظریاتی آزادی کی تکمیل کرتے مگر افسوس انہوں نے یہ تاریخی موقع ضائع کر دیا۔
پی این اے کی تحریک کے دوران بھی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بے مثال قربانیاں دیں جن کو پی این کے بعض لیڈروں نے کیش کرایا مگر اس تحریک کا نتیجہ بھی جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ بھیانک مارشل لاء کی صورت میں نکلا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران بھی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بے مثال قربانیاں دیں اگر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کریش نہ ہوتا تو بے نظیر بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کی صدارت میں وزیراعظم بننا پڑتا۔ اگر منتخب حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک زور پکڑ گئی تو اس کا نتیجہ بھی مارشل لا کی صورت میں ہی نکلے گا۔ مارشل لا مذہبی جماعتوں کو سوٹ کرتا ہے۔ ایم ایم اے المعروف "ملا ملٹری الائنس "اس بات کا ثبوت ہے۔ امریکہ کی سیکرٹری خارجہ میڈم البرائٹ اگر مولانا فضل الرحمان کی منشا کو تسلیم کر لیتیں تو مولانا فضل الرحمان پاکستان کے وزیراعظم بھی بن سکتے تھے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ نون کو یہ سو بار سوچنا چاہیے کہ کیا ان کو بھی مارشل لا سوٹ کریگا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان 72 سال کے بعد بھی افراتفری کا شکار رہے گا یا جمہوریت کا سلسلہ جو گزشتہ بارہ سال سے تسلسل کے ساتھ چل رہا ہے جاری رہے گا۔
حکومتی جماعت اپوزیشن کی جماعتوں اور 22 کروڑ عوام کا مفاد اس بات میں ہے کہ وہ مارشل لاء کی بجائے قومی حکومت پر رضامند ہو جائیں اور 20 سے 25 وزیروں کی حکومت بنا کر پاکستان کو سیاسی اور معاشی بحران سے باہر نکالیں۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو مارشل لا پلس بھی آسکتا ہے۔ افسوس حکومتی جماعت نے سڑکوں کو خالی چھوڑ دیا ہے جس سے اپوزیشن کی جماعتوں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ کر حکومت کیخلاف تحریک چلائیں۔ اگر عمران خان اپنی جماعت کے ساتھ رابطہ قائم رکھتے تو سیاسی بحران پیدا نہ ہوتا۔ حکومتی جماعت کیلئے اس وقت مشکلات بہت زیادہ ہیں لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں بیوروکریسی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی پولیس اشرافیہ کا ہتھیار بن چکی ہے۔ پاک فوج ایک حد تک ہی حکومت کا دفاع کر سکتی ہے لہٰذا حکومت کو آزادی مارچ کا مقابلہ کرنے کیلئے ریاستی مشینری کے ساتھ ساتھ حکومتی جماعت کے کارکنوں کو بھی سرگرم اور فعال کرنا پڑے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منانے کی کال دی ہے اگر تحریک انصاف کے حامی کشمیر کاز کیلئے سڑکوں پر آ جائیں تو اپوزیشن کی تحریک اپنی موت آپ مر سکتی ہے۔ اگر حکومت امن وامان قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو نیا سیٹ اپ سامنے آ سکتا ہے۔کوئی ریاست کسی جماعت کو یہ حق نہیں دے سکتی کہ وہ ڈنڈے کی طاقت سے ریاستی نظام درہم برہم کر دے۔ اگر مولانا نے طاقت اور تشدد کا استعمال کر کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو ریاست کو مجبور ہو کر تحریک لبیک پاکستان کا فارمولہ استعمال کرنا پڑے گا۔ جو مولانا اور ان کی جماعت کیلئے سیاسی موت بھی ثابت ہو سکتا ہے۔