مولانا کا ہشت پہلو آزادی مارچ
آزادی مارچ کے نام پر الیکشن ہارنے کا بدلہ لینے کا وقت آگیا۔ مولانا فضل الرحمن کیا زبردست سیاستدان ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے لئے تو کہتے ہیں لیکن اپنے نوجوان فرزند کا استعفیٰ نہیں دلاتے جو اسی ’’حرام‘‘ ایوان میں براجمان ہوبہو مولانا کی تصویر ہے۔ ’’روحانی‘‘ طور پر مولانا بہرحال اسمبلی میں موجود ہیں لیکن ذاتی طورپر ان کے نہ ہونے سے چونکہ ان کا ’’استحقاق‘‘ مجروح ہوا ہے، اس لئے کسی صورت وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ نجانے کیوں جمعیت علما ہند والا رویہ جمعیت علماء اسلام (ف) نے اپنا رکھا ہے؟ جمعیت علماء ہند و حامیوں کی بات مان لی جاتی تو آج مودی کی چھری اور ہمارا گلا ہوتا اور مولانا فضل الرحمن جمعیت ہند کے امیر ہوتے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے قائد اعظم کو بھجوایاتھا۔
اسلام آباد ہوٹل میں کئی سال قبل کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے جس میں خود جنرل حمید گل اور دیگر کئی رہنما موجود تھے۔ سیمینار سے حضرت مولانا فضل الرحمن خطاب فرمارہے ہیں اور ان کے لبوں سے پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہیں۔ انہوں نے جمعیت علماء ہند کا موقف دہرایا اور قیام پاکستان سے متعلق وہی گفتگو کی تو تقریب میں موجود صحافیوں نے اس پر احتجاج شروع کردیا۔ حضرت کے پہریدار حرکت میں آگئے اور انہیں قابو کرنے کی کوشش کی۔ اس افراتفری میں جنرل حمید گل اٹھے اور قیام پاکستان کا دفاع کیا اور حضرت مولانا کے استدلال کا علمی انداز میں جواب دیا۔ اس جواب کے جواب میں مولانا پھر ڈائس پر نمودار ہوتے ہیں اور اپنی مسکراہٹ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ’’ہم اس پر قائل نہیں ہوئے۔‘‘
قائل کرنے والی تو خیر اللہ ہی کی ذات واحد ہے ورنہ تواللہ کے آخری پیغمبرآقاکریمؐ سے بھی سورہ بقرہ میں یہی فرمایا گیا کہ آپ لوگوں کو خبردار کردیں اور خوشخبری سنادیں۔ ہدایت تو صرف میرے پاس ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے حوالے سے بھی کئی تاریخی واقعات کتب اور سینوں میں محفوظ ہیں۔ کئی واقعات کا احوال بیان کرنا ہی ناقابل اشاعت ہے۔ ہوٹل کا بل ادا نہ کرنے کا معاملہ فارن آفس تک آ پہنچا تھا۔
کانگریسی مولویوں کے مدمقابل بھی علماء اور مشائخ موجود تھے۔ تحریک پاکستان کی حمایت میں علماء کرام اورمشائخ عظام کی حمایت کا واضح اور دو ٹوک اعلان بنارس سنی کانفرنس میں ہوا تھا جو 27 سے 30جولائی 1946ء کو منعقد ہوئی تھی۔ حضرت فقیہ اعظم نے دیگر علمائے سیالکوٹ کے ہمراہ بنارس سنی کانفرنس میں شرکت کی اور مطالبہ پاکستان کو تقویت پہنچائی۔دو قومی نظریہ کی پاسبانی میں علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری بریلوی کاکردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس مقصد کے لئے 1945ء میں مسلمانوں کی مذہبی، علمی اور سیاسی ترقی کے لئے مقتدر علماء حق نے آل انڈیاسنی کانفرنس کی بنیاد بھی رکھی تھی۔کانفرنس کا پہلا تاسیسی اجلاس مراد آباد میں ہوا۔
مولانا رضا علی خان اورمولانا نقی علی خان اور دیگر نے آزادی حریت کی شمع روشن کی۔ 1857ء کے بعد امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے اِس قافلہ حریت کی فکری آبیاری کی اور دو قومی نظریئے کا شعور دیا۔ انہی کے راستے کو اختیار کرنے والے علمائے اہلسنّت میں مولانا حامد رضا خان، صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی،سیّد محمد محدث کچھوچھوی، مولانا امجد علی خان، ابوالحسنات سید محمداحمد قادری، ابوالبرکات سید احمد قادری،علامہ عبدالحامد بدایونی، امیر ملت پیر جماعت علی شاہ، خواجہ قمر الدین سیالوی، مولانا سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا عبدالغفور ہزاروی، مولانا ابراہیم علی چشتی، مولانا غلام محمد ترنم، مفتی سرحد مفتی شائستہ گل، پیر عبدالرحیم پیر آف بھرچونڈی شریف، پیر آف مانکی شریف اورپیر آف زکوڑی شریف شامل ہیں جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری میں بہت اہم کردار اداکیا۔ بے شک قیام پاکستان علماء و مشائخ اور عوام اہلسنّت کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمرہے، کوئی غیر جانبدار مورخ اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک پاکستان کے سفر میں تکمیل پاکستان تک کوئی ایک موڑ بھی ایسا نہیں تھا، جہاں حضرات علماء و مشائخ اہلسنّت قوم کی رہبری و رہنمائی کیلئے موجود نہ تھے۔
جمعیت العلمائے ہند کا بڑا حصہ جو مذہبی سکالروں پر مشتمل تھا قیام پاکستان کے خلاف تھا۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کا دفاع کیا جائے۔ قیام پاکستان کے کٹر مخالف علماء میں مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی شامل تھے۔ جمعیت العلمائے ہند کے دو جریدوں مدینہ (بجنور) اور الجمعیت (دہلی) نے کانگرس کا مقدمہ لڑا۔ ایسی تحریریں بھی موجود ہیں جن میں ’’ایک مستند رپورٹ کے مطابق مولانا کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی نے قائداعظم سے پاکستان کا مقدمہ لڑنے کیلئے چندہ طلب کیا اور قائداعظم کے انکار پر وہ کانگرس کے اتحادی بن گئے۔ مجلس احرار اسلامی نے عطاء اللہ شاہ بخاری اور چوہدری افضل حق کی قیادت میں مسلم لیگ کی مخالفت کی۔ مجلس احرار ہندوستان کی آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہد کررہی تھی اس نے کانگرس کا ساتھ دیا۔‘‘
مولانا فضل الرحمن نے آج تک کرپشن کی مذمت میں دو لفظ کہنا گوارا نہیں فرمایا۔ کیا قوم ان سے سوال پوچھ سکتی ہے کہ آخر تاریخ کی میزان پر ان کا وزن اس پلڑے میں ہی کیوں رہتا ہے جو عوامی نفرت کانشان ہوتے ہیں؟ قوم کے وسائل کی لوٹ مار پر ان کی خاموشی کو کیا رضامندی سے تعبیر نہ کیاجائے؟ وزیراعلی خیبرپختونخوا کے منصب کے لئے اکرم درانی کا نام تجویز ہوا تو جماعت اسلامی نے اعتراض اٹھایا تھا کہ اسلامی اتحاد کا نمائندہ داڑھی سے محروم ہے۔ پھر چند دن ہی گزرے تھے کہ اکرم درانی صاحب مشرف بہ داڑھی ہوگئے اور اب تک ہیں۔
پرویزمشرف کے دور میں ظفراللہ جمالی حکومتی اتحاد کے وزارت عظمیٰ کے لئے امیدوار تھے۔ دوسری جانب حضرت مولانا فضل الرحمن بھی ’’میدان عمل‘‘ میں بروئے کار تھے۔ اس ’’حرام‘‘ قومی اسمبلی میں عمران خان بھی رکن منتخب ہوئے تھے۔ سیاست سے توبہ کرنے والے طاہرالقادری بھی ان اکلوتوں میں شامل تھے جنہیں ایک ایک نشست عطا ہوئی تھی۔
ووٹنگ کے لئے جوڑ توڑ جاری تھا۔ ظفراللہ جمالی محض ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم بن گئے تھے۔ اس 2002ء کی اسمبلی کا ایک دلچسپ واقعہ عمران خان کا ووٹ تھا جو انہوں نے اکبر شیر بابر کے مشورے پر مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا۔ یہ وہ عمل تھا کہ عمران خان نے انتہائی شدید مخالفت کے باوجود مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دے کر خود مولانا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ فضل الرحمن کو ووٹ دینے کے بعد خود عمران خان بھی حیران تھے اور اکبر بابر سے کہا کہ مجھے خیبرپختونخوا سے بہت فون آرہے ہیں لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے حق وسچ کی آواز بلند کی۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت مولانا نے عمران خان کا بنفس نفیس شکریہ بھی ادا کیا۔ وقت بدل گیا لیکن کردار نہ بدلے۔ کانگریسی مولوی کا کردار اب بھی موجود ہے۔ علماء حق بھی ان کے مدمقابل برسرپیکار ہیں۔ مفادات کا کھیل لیکن تلخ اور شرم وحیاء سے عاری ہے۔ لوگوں کا قتل عام بھلے ہوجائے لیکن ایک نشست کے لئے یہ سودا زیادہ مہنگانہیں۔ کون سی گردن اپنی ہے۔ اپنے بچے تو محفوظ ہیں۔ الحمداللہ۔