مودی حکومت کے خاتمہ کی عالمی سطح پر اپیل
میں جب بھی اس حدیث مبارکہ کو پڑھتا ہوں ’’تمہارے جسم میں خون کا ایک لوتھڑا ہے‘ اگر وہ صحیح رہا تو سارا جسم صحیح رہے گا‘ اگر وہ خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہوگا۔‘‘ اور یقیناً وہ دل ہے تو مجھے عقل کے ناقص اور عیار ہوکر اس دنیا میں فسادات پھیلانے اور دل کو بہکاوے میں لیکر یا لا کر خود کو زیادہ معتبر اور قابل قبول بنانے کی ساری مکارانہ اور عیارانہ کاوشوں کے پیچھے مصنوعی پن اور اس کے نتیجہ میں ناقص اور تباہی لانے والے نتائج کی سمجھ آجاتی ہے۔ ’’عقل عیار ہے‘ سو بھیس بدل لیتی ہے‘‘ کا فلسفہ بھی زیادہ کھل کر اور دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت والی شاعرانہ سوچ کی سچائی کا پتہ چل جاتا ہے‘ لیکن اسکے باوجود ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ کو نہ کوئی بدل سکا ہے نہ اسکی اہمیت کم کر سکا۔ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کی اثر پذیری کے بعد مجھے آکسفورڈ یونین سوسائٹی میں بھارت کے ممتاز قانون دان اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر ایڈووکیٹ پراشنت بھوشن کی وہ تقریر یاد آرہی ہے جو انہوں نے چند ہفتے پہلے کی تھی اور بھارتی وزیراعظم مودی کے مظالم اور اداروں کو تباہ کرنے‘ شہریوں کی زندگی اجیرن بنانے اور غیر انسانی سوچ اور عمل کو اپنی اندھی طاقت سے انسانیت کیلئے بے پناہ خطرہ بن جائے تو اس بہت ہی معتبر فورم پر پوری دنیا کے اہل دانش کے سوچنے سمجھنے‘ انسانیت اور انسانوں کو بچانے کیلئے اپنا اپنا حصہ بروقت ڈالنے اور مودی کے مظالم کو روکنے اور اسے اپنے کئے ہوئے مظالم پر کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے جس عرق ریزی‘ دردمندی اور حقیقت پسندی سے تقریر تیار کی وہ آکسفورڈ یونین کے معیار برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش بھی ہے اور حق گوئی و بے باکی کو دھیمے انداز میں پیش کرکے داد سمیٹنے کا منفرد پیغام بھی اپنی گفتگو کو ترتیب دینے میں وکلاء کوجو پیشہ ورانہ مہارت حاصل ہوتی ہے‘ آج بھارت کا یہ ممتاز قانون دان اس کا مظاہرہ نہ کر سکنے اور اس کا اعتراف کرنے کے باوجود سامعین کی توجہ کا مرکز رہا اس لئے نہیں کہ آکسفورڈ یونین سوسائٹی کا پلیٹ فارم بہت معتبر ہے۔ اقوام متحدہ سے بہت پرانا 196 سال پرانا یعنی دو سو سال ہونے کو صرف چار سال رہ گئے ہیں۔ جب سے یونین دنیا بھر کے ممتاز افراد سے خطاب کا شرف حاصل کر چکی ہے‘ جن میں مختلف ملکوں کے سربراہ‘ حکومتوں کے سربراہ‘ سیاستدان اور ممتاز افراد شامل ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن ‘ جمی کارٹر‘ رچرڈ نکسن اور بل کلنٹن برطانوی وزراء اعظم ونسٹن چرچل‘ مارگریٹ تھیچر‘ ڈیوڈ کیمرون سمیت معروف عالمی شخصیات مدر ٹریسا اور مائیکل جیکسن یہاں خطاب کر چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی یہاں خطاب کرنیوالے ممتاز افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ بلکہ پراشنت بھوشن اس بات سے پریشان تھے اور اپنی اگلی تقریر کی ابتدا تھی کہ انہیں سمجھ نہیںآرہی کہ بات کہاں سے شروع کریں۔ مودی حکومت نے بھارت کو جہنم بنا دیا ہے پھر کہا وہ بھارت کے معاشی حالات سے بات کریں جسے مودی نے اپنی احمقانہ پالیسیوں‘ بے مغز اور بے شعور جہتوں اور ہٹ دھرمی کے فیصلوں سے تباہ کر دیا ہے۔ مجھے کہا گیا ہے کہ حقائق پر بات کروں۔ ان حقائق پر کہ ہمارے ہاں تمام ادارے تباہ کر دیئے ہیں۔ وہ ادارے بھی جن کا نام حقائق جاننا اور حقائق بتاتا تھا‘ نیشنل سیمپل آرگنائزیشن جس کا کام بیروزگاری کے بارے میں حقائق جاننا ہے۔ اسے منع کر دیا گیا کہ دو سال کیلئے کام روک دو اور کسی قسم کے اعدادوشمار دفتر سے باہرنہ نکلیں مگر وہ ادارہ مودی کے احکامات اور اپنی ساری حفاظتی تدابیر کے باوجود یہ بات نہ چھپا سکا۔ اور کھوج لگانے والوں نے کھوج لگا لیا کہ نئے روزگار پیدا کرنے کی بجائے ایک سال میں ایک کروڑ آسامیاں ختم کر دی گئی تھیں۔ یہ اعدادوشمار تیار کرنے والے محکموں کے سربراہان پر حملے کرائے گئے۔ ایسے اعدادوشمار جو مودی حکومت کی کارکردگی سے متعلق تھے‘ انکے سربراہوں کو خوفزادہ کیا گیا۔ بعض کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور اپنی ناکام پالیسیوںکو جعلی اعدادوشمار اور پراپیگنڈا کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔ آج بھارت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ حقائق کی کوئی حیثیت نہیں۔ (جاری)