مکمل سیاسی کال
بہت سے دوستوں کی طرف سے پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ 27 اکتوبر کو ہونیوالے آزادی مارچ کے حوالے سے کچھ لکھا جائے۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی بھی کسی قسم کا تبصرہ یا رائے اتنی دیر تک معتبر نہیں ٹھہرائے جا سکتے جب تک اس سلسلے میں وقتی اور واقعاتی شہادتوں کے ساتھ اسکے پس منظر اور اس سباق میں شامل دوسرے ضمنی عوامل کے ساتھ اس حوالے سے ماضی کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ نہ لیا جائے۔ ماضی کے بند کواڑ کھولیں تو پاکستان بننے کے بعد بڑے پیمانے پر جسے سیاسی زبان میں کبھی سٹریٹ پروٹسٹ، کبھی عوامی احتجاج، کبھی لانگ مارچ، کبھی دھرنا اور کبھی آزادی مارچ کا نام دیا جاتا ہے اسکا عملی مظاہرہ پہلی دفعہ 1953ء میں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب لاہور میں احمدی مومنٹ کیخلاف پْرتشدد مظاہرے ہوتے ہیں جسکا حتمی نتیجہ ایک محدود مارشل لاء کے طور پر سامنے آتا ہے۔ راقم اسکی تفصیل میں اس لئے نہیں جانا چاہتا کہ یہ ایک انتہائی نازک اور حساس مسئلہ ہے جس پر پاکستان کا سب سے سپریم ادارہ پارلیمان اپنا فیصلہ دے چکا۔ عوامی احتجاج کا دوسرا مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب خان عبدالقیوم خان 1958ء میں اسکندر مرزا کی حکومت کیخلاف میلوں لمبا جلوس نکالتا ہے اور ایوب خان ملک میں مارشل لاء لگاتا ہے۔ اسی سلسلے کی اگلی کڑی اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب 1965ء کی جنگ کے بعد بھٹو اعلان تاشقند ( جو آج تک بھی ایک راز ہی ہے) کے نام پر ایوب حکومت سے علیحدگی اختیار کرتے ایک تحریک کا آغاز کرتا ہے جسکا نتیجہ بالآخر 1968ء میں ایوب خان کی رْخصتی کے ساتھ ایک نئے مارشل لاء کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ واقعاتی شہادتوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو 1960ء کی دہائی کا یہ وہ عرصہ دکھائی دیتا ہے جب پاکستان معاشی ترقی کے حوالے سے پورے ایشیا میں سب سے آگے تھا۔ اس سے آگے ایک اور منزل چلیں تو پھر آپکو 1977ء میں نظام مصطفی اور اسلامی انقلاب (جو اج تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا) کے نام پر ایک اور عوامی احتجاج نظر اتا ہے جو بھٹو حکومت کے خاتمے پر منجمد ہوتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے برعکس گو کہ اس عرصہ میں صنعتوں کے حوالے سے بھٹو کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے صنعتی ترقی محدود ہو گئی تھی لیکن دوسرے تمام محاذوں پر پاکستان اپنی عالمی شناخت منوانے اور ایک طاقت کے طور ابھرنے کے مراحل بڑی تیزی سے طے کر رہا تھا۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ضیاء دور میں گو کہ ایم آر ڈی مومنٹ کو ایک منفرد مقام دیا جاتا ہے لیکن اکثر تاریخ اخذ کرنے والے بْغض سے کام لیتے اس احتجاج کو اس صف بندی میں شامل نہیں کرتے البتہ تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ اسکے نتیجے میں ضیاالحق کو تمام حجتوں کے باوجود جونیجو حکومت قائم کرنی پڑی۔ تاریخ کے اوراق میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے عوامی سطح پر احتجاجی تحریک کے حوالے سے اگلا episode اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب 1992ء میں بینظیر نواز شریف کے خلاف لانگ مارچ پر نکلتی ہے اور لانگ مارچ کی منزل سر ہونے سے پہلے ہی نواز حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ اسکے بعد پاکستان کی تاریخ میں عوامی احتجاج کی انتہائی شدید نوعیت اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا جاتا ہے جسکا لامحالہ انجام مشرف کے ذاتی اقتدار کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ اسی سباق میں پھر زرداری دور حکومت میں چیف جسٹس کی بحالی کیلئے دو لانگ مارچ ہوتے ہیں جسکے نتیجے میں چیف جسٹس بحال ہو جاتے ہیں۔ اسکے بعد دھرنا سیاست کے حوالے سے 2012ء کا ذکر اتا ہے جب علامہ طاہر القادری اسلام آباد میں پہلا دھرنا دیتے ہیں جو تاریخی اعتبار سے وہ پہلا احتجاج ثابت ہوتا ہے جس میں نہ کوئی حکومت گرتی ہے اور نہ کوئی بنتی ہے۔ اس تناظر میں کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن خاموشی بہتر ہے لیکن اتنا یاد رہے یہ وہ دور ہے جب افواج پاکستان سوات میں دہشتگردوں کا مکمل صفایا کرتی ہیں۔ دھرنا سیاست کا اگلا شاہکار 2014ء کو دیکھنے کو ملتا ہے جب عمران خان اور طاہر القادری دو کزن اسلام آباد کا رْخ کرتے ہیں۔ یہاں بھی یاد رہے یہ وہ وقت ہے جب سی پیک شروع ہوا چاہتا ہے۔ کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ اس دھرنے کے نتیجے میں بھی حکومت نہیں گری لیکن راقم اتنا ضرور کہے گا کہ حکومت اگر گری نہیں تو پھر اپنے قدموں پر کھڑی بھی نہیں رہ سکی۔ اس دوران دو اور دھرنوں کا ذکر بھی آتا ہے جنہوں نے حکومت کو عملاً غیر فعال کر دیا تھا۔ ان تمام احتجاجوں پر ایک نظر ڈالیں تو جہاں اہل فکر کیلئے کچھ سوال اْٹھتے ہیں جن میں پہلا سوال کیا وہ مقاصد جن کیلئے ہم احتجاجی سیاست کا آلہ کار بنتے ہیں اس میں آج تک کوئی ایک مقصد بھی حاصل ہو سکا ہے۔ دوسرا سوال احتجاج اس وقت کیوں اْٹھتا ہے جب پاکستان اپنی ترقی کی طرف قدم اْٹھانا شروع کرتا ہے۔ تیسرا سوال وہ کون قوتیں ہیں جو ہمیں اسطرف کھینچ لاتی ہیں اور کیا ہماری قوم اتنی نحیف ہے کہ ہم انکی چالوں کو سمجھ نہیں سکتے وہاں اس کتھا کہانی سے ایک اور سبق بھی ملتا ہے کہ "جیسی کرنی ویسی بھرنی" اسکے ساتھ آپ خود نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس دفعہ پھر کیا ہونے جا رہا ہے لیکن خْدا راہ ایک تجزیہ نگار کے ساتھ ساتھ ایک پاکستانی ہو کر بھی ضرور سوچیئے۔