محفوظ خوراک اور حکومتی کاوشیں
16 اکتوبر کو ہر سال دنیا بھر میں خوراک کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوامی متحدہ کے ادارے فوڈاینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن ( ایف۔ اے۔ او) کی جانب سے1979 ء میں کیا گیااور 1981ء سے اسے منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد غربت، بھوک، فوڈ ان سیکیورٹی اور غذائی قلت کے مسائل کو ختم کرنا ہے اور ایک ایسے مستقبل کی طرف قدم بڑھانا ہے جہاں ہماری آنیوالی نسلیں قدرتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ایک محفوظ اور مستحکم زندگی گزار سکیں۔ اس سال بھی یہ دن دنیا بھر میں 150سے زائد ممالک میں منایا گیا اور اس حوالے سے مقامی سطح پر تقریبات اور جلسے جلوس کے ذریعے عوام کو آگاہی فراہم کی گئی۔ عالمی ادارہ گلوبل ہنگر انڈیکس کے 2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 124 ملین افراد کو شدید بھوک کاسامنا ہے ۔ جبکہ غذائی قلت کے شمارات اس سے بھی زیادہ حیران کن ہیں۔ عالمی سطح پر لگ بھگ 151ملین بچوں کو Stunted Growth کا سامنا ہے اور 51 ملین غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سخت اقدامات کے باوجود بہت سے عوامل ان کاوششوں کے راستے میں حائل ہوتے ہیں جن میں ماحولیاتی تبدیلی، ناقص حکمرانی، علاقائی تصادم اور کئی دوسرے عناصر شامل ہیں لیکن خوراک کی کمی کو پورا کرنا اور پیٹ بھرنا ہی ہمارا مقصد نہیں ہونا چاہیے ۔ خوراک کا محفوظ ہونا بھی اتنا ہی اہم ہے کیونکہ انسانی صحت کا انحصار اس میں داخل ہونیوالی خوارک پر ہے۔
محفوظ خوراک کا حصول کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ غیر محفوظ خوراک سے مراد دراصل خوراک میں ان تمام عوامل کی غیر موجودگی ہے جو صارف کی صحت کیلئے مضر ثابت ہو سکتے ہوں۔ یہ بیماریاں خوراک میں جراثیم کی موجودگی کے سبب پھیلتی ہیں۔ خوراک میں جراثیم کی ترسیل اس کی ہینڈلنگ ، تیاری یا سٹور کرنے کے مراحل میں پیش آتی ہے۔ اس عمل کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم کھانے سے قبل ان تمام تر مراحل میں احتیاط برتیں۔ کھانے کی کسی بھی چیز کوہاتھ لگانے سے پہلے اس بات کو یقینی بنا لیں کہ آپکے ہاتھ جراثیم سے پاک ہیں۔ اسکے علاوہ کھانے کی جگہ اور استعمال میں آنیوالے برتنوں کا صاف ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ کچے گوشت کا استعمال بہت احتیاط سے کریں کیونکہ اس سے جراثیم بہت تیزی سے منتقل ہوتے ہیں۔ پھل اور سبزیوں کو پکانے سے پہلے اچھی طرح دھو لیں تاکہ کسی قسم کی گندگی باقی نہ رہے۔ کھانا پکاتے وقت اس بات کو یقینی بنا ئیں کہ وہ اچھی طرح پک چکا ہے۔ کھانے کو سٹور کرتے وقت بھی درست درجہ حرارت ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ کھانے میں جراثیم کے پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ غیر مناسب درجہ حرارت بھی ہے۔
مذکورہ بالا تدابیر اپنانے سے ہم گھریلو اور کاروباری سطح (ہوٹل اور ریسٹورنٹ) پر خوراک کو آلودہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ مگر صرف یہی عوامل خوراک کے غیر محفوظ اور آلودہ ہونے کا سبب نہیں بنتے ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں خوراک کے غیر محفوظ ہونے کی بڑی وجہ ملاوٹ ہے۔ ہمارے ہاں خالص اور محفوظ خوراک کا فقدان ہے ۔ملاوٹ کرنے کی بڑی وجہ اس سے باآسانی حاصل ہونے والا منافع ہے۔ ملاوٹ اور غیر معیاری اشیاء کے استعمال سے جہاں کھانے والی شے کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے وہیں اسکی تیاری میں لاگت بھی کم آتی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنا نفع ہی سوچتا ہے اور اس صورتحال میں بے شک انسانی جانیں ہی داؤ پر کیوں نہ لگی ہوں۔ ملاوٹ مافیا خوراک میں ایسی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں جو انسانی صحت کیلئے نہ صرف مضرہونے کے ساتھ ساتھ جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں حکومتی ادارہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے گذشتہ چند سالوں میں کئی قابل ستائش اقدامات کئے گئے ہیں جن کا مقصد عوام تک محفوظ اور معیاری خوراک کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اپنے قیام سے لیکر اب تک صوبے بھر میں خوراک سے منسلک اَن گنت اصلاحات متعارف کروائی ہیں جن کی پیروی دوسرے صوبوں کی فوڈ اتھارٹی کی جانب سے بھی کی گئی۔ پی ایف اے نے نہ صرف ملاوٹ سے پاک خوراک کو اپنا مشن بنا رکھا ہے بلکہ اسکے حصول کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی ہے۔پی ایف اے کی کارروائیوں میں کئی خفیہ ریڈ زبھی شامل ہیں جن کا مقصد کاروباری اور صنعتی سطح پر کھانے کی اشیاء کے معیار کا جائزہ لینا ہے۔ یہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس کی شاندار کارکرردگی ہی ہے کہ آئے دن پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کاروائیاں خبروں کی زینت بنتی ہیں۔ ان تمام اصلاحات کو قومی سطح پر بھی متعارف کروانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک بھر میں محفوظ خوراک کے حوالے سے ایک موثر نظام قائم کیا جاسکے اور مضر صحت خوراک کے سبب مزید انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جاسکے ۔کیونکہ اگر قوم کے افراد صحت مند ہوں گے تب ہی وہ اپنا کردار موثر انداز میں انجام دے سکیں گے اور ملکی ترقی کا حصہ بن سکیں گے۔