حکومتی کارکردگی اور دھرنے
ہمارا بہ حیثیت مسلمان یہ ایمان ہے کہ جو چیزیں رب کریم نے چودہ سو سال پہلے حرام کی تھیں‘ وہ آج بھی حرام ہیں اور جو چیزیں چودہ سو سال قبل حلال کی گئی تھیں‘ وہ آج بھی حلال ہیں۔ مگر ہمارے سیاسی ماحول اور سیاست دانوں نے ملکی امور، ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے جو سوچ پیدا کی ہے اسکی مناسبت سے 2014 کا 216 روزکادھرنا حرام تھا، ملکی کی معیشت کو نقصان پہنچا رہا تھا، جمہوری روایات کے برعکس تھا۔ آج 2019 اسی قسم کا دھرنا جسے کبھی آزادی مارچ، کبھی کشمیر سے یکجہتی کا نام دیا جاتا ہے‘ وہ حلال ہے۔ دھرنا پہلے صحیح تھا اور نہ آج۔ دراصل دھرنے کیخلاف حکومت کی نہ سہی مگر چند وزراء کی نیندیں حرام ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ ملک کے وزیراعظم چاہے ایران میں ہوں یا سعودی عرب میں، یا برطانوی شہزادہ کے استقبال میں‘ دھرنے کی update ضرور لیتے ہونگے۔ مولانا کے مطالبے کو جس میں کہا جارہا ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں اور عمران خان گھر جائیں‘ کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا، بھرپور حمایت صرف اور صرف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ہے، جن پر گزشتہ ایک سال سے حکومت یا تحقیقاتی ادارے کو ئی کرپشن تو ثابت نہیںکرپا رہے‘ انہیں انکے بیانئے کی سخت سے سخت سزا دی جارہی ہے‘ جیل کے اندر ہی دوبارہ گرفتاری کرلی جاتی ہے ، ان مقدمات کی نوعیت اور یہ اچھی طرح جان کر کہ یہ سب کچھ انکی سخت روی، سخت بیانیہ کی سزا ہے وہ لگتا ہے اپنی تمام تر کشتیاں جلا چکے ہیں اور حکومت کیخلاف جو بھی باہر نکلا بغیر اسکے مضمرات دیکھے‘ وہ اسکی حمایت کر نے کو بھرپور تیار ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ یہ اکتوبر بھی خیر سے نکال دیگا۔ اگر حکومت لاٹھی ڈنڈے کی سرکار والی حرکت نہ کرے۔ نیز مولانا کے ڈنڈا بردار دستے بھی پرامن رہتے ہوئے اپنا احتجاج کراکے اپنے مدرسوں کو واپس چلے جائیں۔ شنید یہ ہے ’’معاملہ‘‘ مولانا کے اسلام آباد آمد سے قبل ہی ’’طے‘‘ ہوجائیگا اور ہو بھی جانا چاہئے۔ بیرون ملک پاکستانیوںکی وزیراعظم سے یہ درخواست ہے کہ وہ اس دھرنا سیاست سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہی بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل پر توجہ دیں، جنہیں بشمول گزشتہ حکومتیں سب ہی ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ قرار دیتے ہیں مگر کسی نے بھی اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ کم از کم سعودی عرب کی حد تک مجھے علم ہے کہ خون پسینہ کمائی لیکر وطن کی محبت میں جب وطن جاتے ہیں۔ اس ارادے سے کہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلیںگے مگر جب پاکستان جاتے ہیں تو وہاںکے FBR سمیت دیگر ادارے اتنا تنگ کرتے ہیں کہ بندہ سر پر پیر رکھ کر واپس پہلی فلائٹ پر دوبارہ بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ ایک دوست نے جو یہاں ایک طویل عرصے سے کاروبار کررہے تھے اور اپنی جمع شدہ رقم سے پاکستان میں ایک بہترین یونیورسٹی قائم کی اور اب عرصے سے کاغذی کاروائیوں، مختلف دفاتر کے چکر کاٹ کر یونیورسٹی کی افتتاح کو پس پشت ڈال کر اپنی ملازمت پر واپس آگئے اور ملکی حالات پر افسوس کرتے رہے کہ حکومت سرمایہ کاری کا کہتی ہے جو صرف ایک نعرہ لگتاہے۔ جب پیسہ ملک میں لیکر جاتے ہیں تو مختلف ادارے اور شخصیات منہ اور آنکھیں پھاڑ کر اپنے حصہ کے انتظار میںہوتی ہیں یا کاروبار کی خواہش رکھنے و الے کو چور سمجھ کر اسکی تحقیقات شروع کردی جاتی ہیں۔ کچھ گزشتہ حکومتوں نے بھی اور حال میں وزیراعظم نے citizen portal ، وزیر اعظم ہائوس میں شکایت سیل کا اجراء کیا۔ ملک کے اندر کی کارکردگی کا مجھے علم نہیں مگر سعودی عرب اور جدہ کا علم ہے یہاں جو شکایات وزیراعظم تک پہنچائی جاسکتی ہیں وہ سکولوں، سفارت خانوں، قونصل خانوںکی زیادتیوں کی ہو سکتی ہیں۔ وزیراعظم کی سوچ پر شک نہیں وہ دل سے بیرون ملک پاکستانیوںکی مدد کرنا چاہتے ہونگے مگر آن لائن پورٹل پر بھیجی جانیوالی شکایت واپس اسی کے پاس آتی ہیں جسکے خلاف شکایت ہے۔
دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو اپنی زیادتی کو زیادتی کہے گا اور وزیراعظم کے شکایت سیل کو جواب میں اپنی غلطی کہتے ہوئے جواب دیگا؟؟ ماضی قریب میں پورٹل پر شکایات گئیں جس کے جواب یہ دیئے گئے، ’’کمیونٹی سیاست کرتی ہے،، کمیونٹی گروپنگ میں ہے، شکایات بالکل غلط ہیںاور بھلا ہو۔ وزیر اعظم شکایت سیل کے ذمہ داروں کی وہ فائل بند کردیتے ہیں جبکہ شکایت کنندہ کی شکایت کی پوری تحقیقات ہونا چاہئے تاکہ انصاف مل سکے۔ موجودہ حکومت کے وزیر یا مشیر بیروں ملک ایران، توران، امریکہ تو وزیراعظم کے ہر دورہ پر ساتھ ہوتے ہیں مگر اپنی وزارت سے متعلق انہوں نے آج تک کوئی دورہ نہیں کیا۔ ملک میں معاملات تو چلتے رہیں گے۔ زلفی بخاری کا بظاہر کام بیرون ملک پاکستانیوں سے ملاقاتیں ہیں نہ کہ وزیراعظم کے ہمراہ ہر دورہ میں شمولیت۔