قرارداد مقاصد اور لیاقت علی خان
آج قائد ملت لیاقت علی خان کی 68ویں برسی ہے۔ آپ 14 محرم الحرام بمطابق 16 اکتوبر 1951ء لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دئیے گئے۔ ’’برادران ملت‘‘ کے الفاظ سے حاضرین کو خطاب کیا ہی تھا کہ دو گولیاں قلب کے زیریں حصے میں پیوست ہو گئیں۔ لیاقت باغ سے آپ کو فوری کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لے جایا گیا مگر ملک الموت نے مہلت نہ دی۔لیاقت علی خان کا دور حکومت مختصر دور تھا۔ قرارداد مقاصد لیاقت علی خان ہی کے زمانے میں پاس ہوئی جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انکے عہد میں قرارداد مقاصد پاس ہو گئی اور ہم نے تعین کر لیا کہ کس قسم کا راستہ اختیار کرنا ہے یعنی اسلام کی کونسی تعبیر اختیار کرنی ہے۔ ایک طرح سے اس نکتہ پر ملت کا اجماع ہو گیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، اس کے مقاصد کا اظہار قرارداد مقاصد میں کیا جا چکا ہے۔ ہمارے ذہن میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ بانیان پاکستان قائداعظم اور علامہ اقبال کے ذہن میں اسلام کی کیا تعبیر تھی جس کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا۔ مثلاََ دو قومی نظریے کی اس شکل میں اسلامی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ برصغیر میں دو قومیں آباد تھیں۔ ایک مسلمان اور دوسری ہندو۔ مسلمان یہاں پر چھ سو سال حکمران رہے۔ اگر آپ البیرونی کی کتاب پڑھیں۔ یہ پہلا شخص ہے جس نے محسوس کیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں کتنا فرق ہے اور یہ کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اسکی کتاب کے بعض اقتباسات بالکل اسی طرح کے ہیں، جیسے قائداعظم کی تقاریر کے حصے ہوں۔ حالاں کہ ان میں تقریباََ نو سو برس کا فرق ہے۔ اس بات کی شہادت تو تاریخ میں مل سکتی ہے لیکن انداز بیان کے اعتبار سے دو قومی نظریہ ایک نیا تخیل اور نیا تصور تھا۔ جب قرارداد مقاصد پاس کی تو عہد کیا گیا کہ ہم نے نامزدگی اور غصب کے اصولوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم صرف انتخابات ہی کو لیں گے کیوں کہ یہی طریقہ خلفائے راشدین کا تھا۔ یہی تصور ہے جس کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا جمہوریت سے تصادم نہیں۔ اگر آپ قرارداد مقاصد کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ اس میں انتخابات کے ساتھ بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی طے کر دیا گیا کہ مسلمانوں کا رویہ اقلیتوں کے ساتھ کیا ہو گا یعنی غیر مسلموں کے ساتھ آپ نے برابری کا سلوک کرنا ہے۔ اس بنا پر کہ انکے ساتھ اشتراک وطن ہے۔ مسلمانوں پر قرارداد مقاصد کے تحت دوہری ذمہ داری ہے یعنی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی اشتراک ایمان کے اصول پر اور غیر مسلموں کے ساتھ یکجہتی اشتراک وطن کے اصولوں پر۔ یہ دونوں ایک ہی تصور کے دو رخ ہیں۔ ان میں کوئی تضاد نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قرارداد مقاصد کا تعلق روایتی فقہ سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق جدید اجتہاد سے ہے۔ وہ اجتہاد خواہ پاکستان کے بانیوں کا تھا لیکن قوم نے اس کی تصدیق کی۔ ان پر اعتماد کیا اور لبیک کہا۔، پس قرارداد مقاصد ایک طرح سے اجماع امت ہے، اس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ جو اس سے انحراف کرتا ہے، وہ اس اجماع امت کے خلاف جاتا ہے۔ جہاں تک قائداعظم کی تحریک پاکستان کا تعلق ہے تو کانگریسی علماء نے ان کی مخالفت کی۔ احراری علماء نے بھی مخالفت کی۔ قائداعظم کی تحریک کے سبب منفی ذہن رکھنے والے علماء کا اثر ختم ہو گیا۔ کیوں کہ مسلمانوں نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہا۔ قائداعظم کے زمانے میں لیاقت علی خان کی جو مرکزی کابینہ بنی اس میں احمدی اور ہندو وزیر بھی شامل تھے۔ کوئی مذہبی امتیاز نہ تھا۔ غیر مسلموں سے انہوں نے برابردی کا سلوک کیا۔ اگر ان میں میرٹ تھا تو انہیں بھی وزیر لیا گیا۔
1956ء کا آئین کتنی مشکلوں سے بنا تھا لیکن اس کا حشر یہ ہوا کہ اس وقت کوئی اور سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں تھی جو کہ مسلم لیگ کا مقابلہ کر سکتی۔ قائداعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ میں اتنا انتشار آیا ۔ بدقسمی سے ہماری سیاست نے یہ شکل اختیار کر لی کہ تھوڑے عرصے کے بعد وزیراعظم بدلتے رہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین آئے پھر چودھری محمد علی، پھر فیروز خان نون، محمد علی بوگرہ اور حسین شہید سہروردی۔جب بات سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل گئی تو وہ بیوروکریٹس کے ہاتھ میں آئی۔ ملک غلام محمد، چودھری محمد علی اور سکندر مرزا کا تعلق انتظامیہ سے تھا۔ یہ سیاست دان نہیں تھے۔ جب ان سے بات نہ بنی تو فوج آ گئی۔ پہلا مارچ لاء اینٹی احمدی تحریک کے سلسلے میں پنجاب میں لگا۔ یہ بڑا سخت تھا جس کو آج تک لوگ نہیں بھولے۔ جب ہم نے قائداعظم کے نظریات سے انحراف کیا تو جو وسیع النظری پاکستان کے ابتدائی دور میں دیکھنے میں آئی وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئی۔ ہم نے وسیع النظری چھوڑ کر علاقہ پرستی، نسل پرستی یا زبان پرستی کی قدامت پسندی قبول کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک توڑا۔ قائداعظم کے راستے سے ہٹ کر ہم منتشر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ایسا کوئی لیڈر نہیں جو ہمیں محبت کی بنا پر سمیٹ سکے۔ اصل میں جب رواداری ختم ہوتی ہے تو ایک دوسرے کے لیے نفرت و حقارت پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی پر اعتماد نہیں رہتا۔