پنجاب کے بجٹ میں اہم ترجیحات !
1990میں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں حبیب جالب کی بجٹ کے حوالے سے ایک نظم بہت مشہور ہوئی تھی جس کا مصرعہ یہ ہے کہ
جب وہ اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں ہی کا ہو جاتا ہے جھٹکا
1993میں حبیب جالب کا انتقال ہوا اور حیرت کی بات ہے کہ یہ پوری نظم نواز حکومت کے تینوں ادوار کے ہر بجٹ پر پورا اُترتی رہی ہے۔ رواں سال 14مئی کو سابقہ پنجاب حکومت نے عجلت میں 635ارب روپے کا جو بجٹ پیش کیا وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اعداد و شمار پر مشتمل تھا،جس میں اورنج ٹرین ہی ہر طرف چھائی رہی۔ بجٹ محض دکھاوا ہوا کرتا تھا، اصل احکامات تو فرد واحد ہی کے ہوا کرتے تھے۔ اسی بجٹ کی ’’تصیح‘‘ کے لیے پنجاب حکومت نئے وژن کے ساتھ رواں مالی سال کا بجٹ آج دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مصدقہ اطلاعات کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ موجودہ بجٹ میں پچھلی حکومت کے ایسے تمام جاری منصوبے بشمول میٹرو ٹرین جن پر کام تکمیل کے قریب ہے، ان کو جاری رکھا جائے گا۔ تاہم ان میں چھپی کرپشن کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ حکومتی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کیا جائے گا۔ عمران خان کے 100 روزہ پلان جو بنیادی طور پر گورننس میں بہتری، مضبوط فیڈریشن کی بحالی، زراعت کی ترقی، آبی وسائل کی دستیابی اور سوشل سیکٹرز میں بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
پنجاب حکومت اگلے چند سالوں میں جن فیکٹرز پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اُن میں طرزحکومت میں بہترتبدیلی ، وفاق کی مضبوطی، معیشت کی مضبوطی، جامع اقتصادی ترقی اور سیاحت، تعلیم میں بہتری، زراعت و آبپاشی نظام میں بہتری اور اس کے علاوہ پانی کے ضیاع کو روکنے اور اس کی بہتر ترسیل کے نظام کیلئے پنجاب میں پہلی دفعہ نیا قانون Provincial Water Policy & Punjab Ground Water Act, 2018 مکمل کرلیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پانی کے بہاؤ کی مانیٹرنگ کے لیے سسٹم بنا دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے چیمپیئن گرین گروتھ کے تحت کلین اینڈ گرین پنجاب پروگرام کا آغاز کیا جاچکا ہے جس کے تحت 100دن میں 16لاکھ پودے لگائے جارہے ہیں۔ اس سوروزہ پلان کے مطابق، حکومت پنجاب یوتھ پاور، انویسٹرز اور کسانوں کے لئے بھی اکنامک پیکج لانچ کرے گی۔ اسی طرح ایک جامع جاب تلاش کرنے کی حکمت عملی بھی بھی متعارف کرائی جا رہی ہے جس کے تحت نوجوانوں کے لئے روزگار کے اَن گنت مواقع پیدا ہوں گے۔ پنجاب میں سیاحت کا فروغ بھی حکومت کی مرکزی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس بجٹ میں حکومت کسان بھائیوں کے لئے آسان کریڈٹ اور ون ونڈو آپریشن کی سہولیات فراہم کرے گی تاکہ ان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ اسی طرح پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ Water Treatment Plants کی بھی تنصیب کی جائے گی۔ خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دلانے کے لئے خواتین کے حقوق کی ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف کا ریفارمز ایجنڈا بھی متعارف کروایا جا رہا ہے، جو عوام دوست ہے جس کا مرکز پاکستان کے عوام ہیں۔ صوبے کی آئندہ پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ بندی عوام کی بنیادی ضروریات خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور مکان کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے۔ تبدیلی کا دوسرا عنصر جو وطن عزیز کو قرض کی لعنت سے نجات دلائے گا وہ صنعت کا فروغ اور کاروبار میں اضافہ ہے جسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، اخراجات پر کنٹرول اور محصولات کے نظام میں تبدیلی کے ذریعے ممکن بنایا جائے گا۔ محصولات کے نظام میں تبدیلی صرف آٹومیشن تک محدود نہیں ہو گی بلکہ ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا جو استعداد رکھنے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ ٹیکس کا پروگریسو سسٹم غریب عوام پر بوجھ میں کمی کا سبب بنے گا۔ اسی طرح ٹیکس دہندگان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایک ایک پائی کا حساب دیں گے۔ تحریک انصاف ماضی کی طرح نمائشی ترقیاتی منصوبہ بندی متعارف نہیں کروائے گی بلکہ Needs and Evidence Based ترقیاتی منصوبہ بندی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا سسٹم رائج کرائے گی۔ اب میں رواں سال 2018-19 کے بجٹ کے اہم خدوخال پیش کرتا ہوں۔ نئی حکومت کے رواں مالی سال کے بجٹ کا ٹوٹل حجم 2025.85 ارب روپے ہو گا۔ اس بجٹ میں اگر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ ترقیاتی بجٹ نہیں دیا جائے گا تو اس کی اطلاع کے لیے میں یہ بتاتا چلوں کہ سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لئے 238 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ رہی بات تعلیم اور صحت کی تو پنجاب کے حالیہ بجٹ میں تعلیم و صحت پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، اور تعلیم پر خرچ کیے جانے والے سابقہ بجٹ سے 2فیصد زیادہ اور صحت پر خرچ ہونے والے بجٹ سے 14فیصد زیادہ رقم مختص کی جا رہی ہے۔ کیونکہ تعلیم کے میدان میں گزشتہ حکومت کی کارکردگی کا احاطہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو گی کہ اس وقت بھی صوبہ پنجاب میںلاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں اور تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود آج بھی پنجاب کے عوام کوالٹی ایجوکیشن سے محروم ہیں۔ اسی طرح سوشل سیکٹر میں شامل صحت کے شعبے کی بہتری بھی تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ پنجاب حکومت کی یہ کوشش ہو گی کہ ہمارا صحت کا نظام لوگوں کے لئے سہولتیں مہیا کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ انصاف صحت کارڈ کا اجراء پنجاب میں بھی کیا جا رہا ہے۔
اگر ہم جنوبی پنجاب کی محرومی کی بات کریں تو بات عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت پنجاب صوبے میں علاقائی عدم مساوات کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد کم ترقی یافتہ علاقوں میں براہ راست انویسٹمنٹ کے ذریعے دیہی گھرانوں کی آمدن اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنوبی پنجاب کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ تمام تر حکومتی دعووں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کو اس کی آبادی سے کہیں کم وسائل مہیا کئے گئے اور جائز حق سے محروم رکھا گیا۔ اسی طرح زراعت و آبپاشی کے نظام میں بھی بہتری لائی جا رہی ہے۔ ’’کلین اینڈ گرین پنجاب‘‘ تحریک انصاف کا نعرہ ہے۔ یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک کے تعاون سے پنجاب گرین ڈویلپمنٹ پروگرام (PGDP) کے تحت پنجاب کے ماحولیاتی نظام میں اربوں روپے کی لاگت سے اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ پوری دنیا کی طرح Global Warmingپاکستان کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ بالخصوص اس لئے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور آب و ہوا کی تبدیلی فصلوں کی خرابی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ لیکن ہماری زرخیز زمینیں ہمارے لئے ایک بڑی نعمت بھی ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت اور سبزہ لگا کر ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچیں۔ اس ضمن میں رواں مالی سال کے بجٹ میں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے بھی رقم مختص کی جار ہی ہے ۔ صوبہ پنجاب میں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لئے بھی حکومت پنجاب کوشاں نظر آرہی ہے۔ اسی طرح ایک اور منصوبے کے تحت ماحولیاتی لیبارٹریز کی اپ گریڈیشن کی جارہی ہے تاکہ دریائوں، نہروں اور ہوائوں میں پھیلنے والی آلودگی کی سائنسی بنیادوں پر پیمائش اور تشخیص ہو سکے۔
مذکورہ بالا شعبہ جات کے علاوہ موجودہ حکومت انڈسٹریز اور روزگارکے مواقع عوام تک لا رہی ہے۔ ٹیکس اصلاحات نافذ کی جارہی ہیں۔ اگر اب بھی ٹیکس دینے کی استعداد رکھنے والے افراد اور ادارے ملکی ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے تو معیشت کو تباہی سے بچانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ اس صورت حال کو اب ختم ہونا چاہئے۔ ہر ایک کو قانون کے مطابق اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی ہمارا امتحان بن گئی ہے اس لیے حکومت اس سلسلے کو بھی آگے بڑھا نا چاہتی ہے۔ حکومت کا پروگرام ہے کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت کے Digital Governance کے منصوبوں کے تحت صوبائی سطح پر بھی دفاتر کی Automation کی جائے تاکہ عوام کو سہولت ہو اور وہ دفتروں کے چکر لگانے کی بجائے Online ہی خدمات کی فراہمی سے مستفید ہو سکیں۔ اس کے علاوہ حکومتی دفاتر کی Internal ورکنگ اور کارکردگی بھی بہتر ہو۔ آئی ٹی کے شعبے کو ترقی دے کر لاکھوں ملازمتیں بھی پیدا کی جا سکتی ہیں اور ہم پرعزم ہیں کہ اس شعبے کے ذریعے چند سالوں میں بیروزگاری کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیں گے۔