پاک امریکہ تعلقات اور اعتماد
مکرمی :بھارت حکمت عملی کی بنا پرہمیشہ امریکہ کا منظور نظر رہا ہے اور مستقبل میں بھی ان تعلقات میں بگاڑ کا کوئی امکان نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ بھارت کو اس علاقہ میں ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ذریعہ چین کو لگام دینا چاہتا ہے۔ امریکہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ چین جیسا ملک اس کی سپر پاور حیثیت کیلئے چیلنج بنے ۔اس لئے امریکہ اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط بھارت ہی کو ترجیح دے گا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ امریکہ کی یہ خواہش کہاں تک پوری ہوتی ہے کیونکہ بھارت کی تہذیبی اور عقلی عمر امریکہ سے ہزاروں سال بڑی ہے۔ تاہم حالات کو بگاڑنے میں روس افغان جنگ بھی خارج از بحث نہیں۔ روسی افواج 1979ء میں افغانستان میں داخل ہوئیں اور یہ جنگ 1989ء فروری تک جاری رہی۔ اس جنگ میں پاکستان اور سعودی عرب نے دنیا کے مسلم ممالک سے لائے گئے مجاہدین اور مائوسٹ گروپس کی خوب حوصلہ افزائی کی اور افغانستان کے دور دراز علاقوں تک یہ جنگ پھیل گئی۔ گوریلا طرز جنگ نے اس جنگ کو سرد جنگ۔ پراکسی جنگ بنادیا۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق 562000 تا 2,000,000 شہری اس جنگ میں مارے گئے۔ لاکھوں مہاجرین اس کے علاوہ ہیں جنہوں نے پاکستان اور ایران میں پناہ حاصل کی۔آرکیڈیا یونیورسٹی اور امریکن گریجویٹ سکول ان پیرس کے شائع شدہ جرنل آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ ڈویلپمنٹ سٹڈیز میں شامل Lubna Sunawar and Tatiana Coutto کا تحقیقی مقالہ اس سرد جنگ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر امریکی دبائو اور فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر پاکستان کی مشکلات کی بڑی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ موجودہ دہشتگردی کی جنگ اسی جنگ کا بگڑا ہوا سلسلہ ہے۔ اب اس مقالے کے الفاظ پر غور کریں۔ مقالہ کے الفاظ میں ’’یہ کہانی ہے مبالغہ آمیز اور غیر واضح توقعات کی، وعدہ خلافیوں اور غلط فہمیوں کی‘‘۔ اس نفرت و محبت کے تعلقات میں ہمیشہ باہمی اعتماد کی کمی رہی۔آج بھی امریکہ حقیقی اور قابل اعتماد دوستی کے لئے زیادہ بے چین نہیں۔ امریکہ نے ابھی حال ہی میں پاکستانی آفیسرز کے لئے فوجی تربیتی پروگرام اور 300 ملین ڈالرز کی امداد روک دی ہے۔ (ایم فضل الٰہی، اسلام آباد)