قصہ اساتذہ کرام کو ہتھکڑی لگانے کا…!
شُعبۂ تدریس و تحقیق سے منسلک ہونے کے ناطے مَیں اپنے پیشے پر نازاں تھا، مَیں بڑے فخر سے اس بات کا تذکرہ کیا کرتا تھاکہ میں نے اپنی تدریسی اور تحقیقی سر گرمیوں کی بدولت قوم کو 45 پی ایچ ڈی اور 13 ایم فل سکالر تیار کر کے دئے ہیںلیکن جب پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری اور پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کو محض ایک الزام کی بنیاد پرہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا تو مجھے اپنا قد بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا ہے، اب شاید میں اپنے آپ کو بطورِ پروفیسر متعارف کرانے میں بھی شرم محسوس کروں گا۔ پروفیسر مجاہد کامران کی عدالت میں پیشی کی خبر کو میڈیا پر بار بار نشر کیا گیالیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر اکرم کا ذکر صرف حفیظ اللہ نیازی نے ایک ٹاک شو میں کیا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ان معزز اساتزہ کو جو منفرد محقق اور ہزاروں دلوں کی دھڑکن ہیںلیکن وہ انتظامیہ کے اس بہیمانہ سلوک کی وجہ سے تضحیک کی علامت بن کے رہ گئے ہیں ،ہمارے اقتدار کے ایوانوں میںرسائی کا زینہ صرف اور صرف بد عنوانی، منی لانڈرنگ اور قتل وغارت ہی ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جن کی بدولت بڑے سے بڑا سیاسی عہدہ آپ کی دسترس میں ہوگا۔ ایک وہ بھی ملک ہیںجہاں استاد کے عدالت میں موجود ہونے کی اطلاع پر عدالت اپنی نشستوں پہ کھڑی ہو جاتی ہے اور ایک ہم بد نصیب قوم ہیں کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ محقق اور مدرس کو محض الزام کی بنیاد پر
ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے پر ذرہ برابر شرم محسوس نہیں کرتے۔وہ قابلِ احترام ہستیاں جنھوں نے نہ صرف اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی سال اور سرمایہ صرف کیا بلکہ اِن تعلیمی اداروں کوپروان چڑھانے کے لئے اپنے دن کا چین اور رات کا آرام قربان کیا۔جنھوں نے قوم کے بچوں کے ہاتھوں میں قلم تھمائے، قوم نے اُن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی ہیں ان معززہستیوں کے انجام کو دیکھ کر میری بصیرت اس ملک کو تباہی کے دہانے پہ دیکھ رہی ہے کیونکہ قوم نے کردار سازی کی جگہ قتل، ڈاکہ زنی، موبائل چوری،ہیرا پھری،منی لانڈرنگ، لینڈمافیا،آئین شکنی ، بنکوںاوردیگر اداروں کو کھربوں کا ٹیکہ لگانے کو اقدار کا حصہ بنا لیا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کروالدین یہ سوچنے پہ مجبور ہو جائیں گے کہ وہ اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی بجائے منشا بم، راوء انوار، ایان علی اور سیاست دان کیوں نہ بنائیںجو جرائم کرنے کے باوجود دندناتے پھر رہے ہیں،رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود اُن کا بال تک بیکا نہیں ہوتا۔ملکی آئین تو ڑنے والے غیر ملک میں محوِ رقص ہیںجبکہ عدالت میں اُن کے وکیل کمر درد کا سرٹیفیکیٹ پیش کر رہے ہیںاور تعلیم ہمارے لئے تضحیک کا باعث بن گئی ہے۔ کردار سازی کوہمارے نصاب کے قریب بھی نہ جانے دیا جائے بلکہ مندرجہ بالاقبیح حرکات اور سماج دشمن سرگرمیوں کواپنی اقدار کے طور پرتسلیم کر لیا جائے تاکہ ہم ان اقتدار پر عمل کر کے "سر خُروئی" سے ہمکنار ہو کراقوامِ عالم کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کر سکیں۔ماضی قریب میںاسی قسم کا ڈرامہ پروفیسر ڈاکٹر علقمہ خواجہ کے ساتھ بھی رچایا گیا جس سے یہ احساس تقویت پکڑنے لگا ہے کہ اعلیٰ پائے کے اساتذہ اور محققین ہائر ایجوکیشن کے اداروں کے انتظامی عہدے قبول کرنے سے انکار کر دیںاور پھر ان عہدوں پر نوکر شاہی کے من پسند افراد کو مقرر کرنے کی راہ ہموار ہو جائے۔