دوا ور دعا بھی
کیو بلاک پاک سیکریٹریٹ اسلام آبا دبظاہر تو دوسری عمارتوں کی طرح کی ہی ایک عمارت دیکھائی دیتی ہے،اس کا بھی وہی رنگ ہے جو اس جیسی دوسری سرکاری عمارات پر ہے ،اس کی لفٹس بھی اوپر نیچے آتے جاتے ویسے ہی چوں چوں کرتی ہیں جسے سرکاری خرچہ پر چلنے والی کرتی ہیںلیکن جو پر اسراریت اس عمارت سے وابستہ ہے وہ کسی دوسری عمارت سے نہیں ہے، دعا ہے کہ اس کی دیواروں کو زبان عطا کردے اور اگر یہ دعا قبولیت پا لے تو بہت سے راز کھل جائیں گے کہ کیا ایسا ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت ابتر ہوئی،اور اس ملک کے معصوم باسیوں کو اس پراسرار ہالے سمجھنے میں بھی مدد ملے گی جو اس کے ارد گرد ہے ،بڑے بڑے دماغ بڑے بڑے عزم لے کر اس کی جانب گئے اور اس طلسمی ہالے کی نذر ہو گئے،کوئی وژن اور کوئی معاشی تھیوری کام نہیں کر سکی ہے ، آج قوم 95ارب ڈالر کی مقروض ہے ،ریونیوکا بڑا حصہ ان ڈایریکٹ ٹیکسوں سے آتا ہے،تعلیم اور صحت پر دنیا میں سب سے کم خرچ کرنے والے ملک ہیں ،اس کی اصل وجوہات سب کے علم میں ہیں،سامنے ٹی وی پر نامور گلوکار غلام علی کی گائی غزل چل رہی ہے جس کا مطلع ہے ’’دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے ،اگر چہ بولتا کوئی نہیں ہے‘‘ ،اس میں سوال بھی ہے اور جواب پنہاں ہے،اس لئے تو اصل اور سچ کی بجائے ساری توانائی کم تر درجہ کی وجوہات پر صرف کر دی جاتی ہے، 1999 تا 2007ء تک کئی بار کیو بلاک کی سڑھیاں چڑھیں جہاں بتایا گیا کہ سارا کیا دھرا 90ء کی دھائی میں آنے والی حکومتوں کا ہے اورپاکستان کی گمشدہ دھائی نوئے کی دھائی ہے ، یہ وہی حکومت بتا رہی تھی جس نے قرضوں کی حد مقرر کرنے کا ایکٹ بنایا تھا،2013ء میںجب روشن خیال جدیدیت کی حکومت گئی تو قرضوں کا تناسب جی ڈی پی کے 60فی صد کو چھو رہی تھی ،یعنی کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا،اسحاق ڈار پی پی پی کی حکومت میں وزیر خزانہ بنے تو اس چند ہفتوں کی وزارت میں انہوںنے سارا زور اس بات پرصرف کر دیا تھا کہ سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک کا حال خراب ہوا ، اور معاشی ترقی کی بات محض ایک دھوکہ تھی پھر نوید قمر اور شوکت ترین آئے اور اسی کیو بلاک میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بیسیوں وجوہات گنا دیں،2013ء میں اسی کیو بلاک میں اسحاق ڈار عالمی مالیاتی ادارے کا پاس جانے کے حق میں دلائل کے انبار لگا رہے تھے ،2018ء کے اکتوبر کا دوسرا ہفتہ آیا توآیا اور سندیسہ ملا کہ اسد عمر ملک کے معاشی حالات پر روشنی ڈالیں گے ،تو خاک نشیں کیو بلاک کے اسی ’’ خانہ طلسم‘‘ میں جا بیٹھا جہاں برسہا برس گاہے ،گاہے آتے جاتے سیاہ بالوں میں چاندنی اتری تھی،’’پولی،پولی ‘‘ کرسی پر بیٹھ کر سب سنا ،جو کچھ نیاء نہیں تھا ،بہت با رپہلے بھی سن چکاتھا بس چہرے بدلے تھے, بات وہی تھی ، اس میںدہلادینے والی حقیقت یہ تھی کہ بتایا جا رہا تھا کہ صورتحال بہت ہی خراب ہے ،آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں تو کام تو چل سکتا ہے مگر عوام کو تکلیف بہت ہو گی،سو عوام کو تکلیف سے بچانے کے لئے مجبوری میں سب کرنا پڑ رہا ہے ،19بار پہلے بھی گئے تھے تو بیسیویں بار بھی چلے جائیں،مگر کیا اس کے بعد سب کچھ بدل جائے گا؟لگتا نہیں ہے ،کیونکہ اصل ایشوز پر نہ کوئی بات کرتا ہے اور نہ ان کو اٹھاتا ہے ، کوئی نہ کوئی مجبوری آڑے آتی ہے ،غداری کے فتوئے کون سہے ،بس سیاسی دھوبی گھاٹ ہے اور ایک دوسرے کی دھلائی کی جاتی ہے ،آئی ایم ایف کا کوئی بھی پروگرام اٹھا کر دیکھ لیں ،اس کی ہر رپورٹ میں ایک ہی طرح کی باتیں کی موجود ہوتی ہیں ،2004سے 2016ء کے درمیان جتنے بھی ریویو ہوئے ان سب میں کہا گیا کہ سرکاری کاروباری اداروں کے نقصانات کو روکا جائے ،توانائی سیکٹر میں چوری،نااہلی اور نقصانات کو ختم کیاجائے،شفافیت لائی جائے اور گورنس کو بہتر کیا جائے،ان تمام ایشوز میں بار بار استثنیات مانگی گئی اور آئی ایم آیف دیتا رہا،اس کا مطلب یہی ہے کہ مسائل جوں کے توں رہے ،سیاسی مفاد تھا تو استثنی دیا جاتا تھا،مگر کئی بار آ ئی آیم ایف کا پروگرام ناکام ہوا اور پیسے روکے گئے،اس کی وجہ بھی یہی ایشوز تھے،اس بار بھی وہی قرضے ،سرکاری اداروں کے خسارے کے مسائل ہیں اور عالمی ادارے کے علاج کا وہی نسخہ ہو گا جو کئی بار استعمال کیا جا چکا ہے ،اتنا سیاسی عزم ہے کہ دو ٹوک فیصلے ہوں اور ان پر عمل بھی کر دیا جائے،فی الوقت ان کا جواب دینا ممکن نہیں ہے ،وقت گذارانا ہے یا کر گزرنا ہے ،یہی دو چوائس ہیں،جتنا ٹیکس کا بوجھ ڈال چکے ہیں اس سے زائد کی گنجائش نہیں رہی ہے ،امیروں کا کہہ کر نچلے متوسط طبقہ کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ، نان 12 روپے کا ہو گیا ہے ،اس سے اندازہ کر لیں کہ کس کے منہ سے نوالہ چھینا جا رہا ہے ، ظاہر ہے کہ مزدور کے منہ سے، جب کمرشل گیس مہنگی کی جائے گی تو اس کا اثر کس پر جائے گا ،؟ اشیاء کے صارف متاثر ہوں گے کیونکہ بنانے والے نے تو لاگت ‘‘خریدار‘‘ کی جانب منتقل کرنا ہے ،اب جبکہ 2018ء گذر رہا ہے ،تو آئی آیم ایف کی تکلیف کو آخری بار کی سمجھ کر ہی جھیلا جا سکتا ہے ، اب صبر کے پیمانے لبریز ہیں ،اور لوگ ریلیف چاہتے ہیں ، امن وسکون چاہتے ہیں،اس پر بھی دھیان دینا ہو گا ،آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں عوامی محسوسات اور مطالبات میں توازن رکھنا ہو گا ، اخراجات کی جانب نگاہ کو کڑا کیا جائے ،بلا امتیاز اور بلا خوف سب کے اخراجات میں کمی لائی جائے،پی ایس ڈی پی کو کٹ لگایا ،چلے برداشت ہو جائے گا خاص طور پرجب یہ کہہ دیا جائے کہ گذشتہ سال سے ذیادہ ترقی پرخرچ کیا جائے گا ،مگراس بات کی ضرورت ہے کہ اخراجات کو شفاف بنانے کے انتظام کو بہتر کیا جائے،بات اور اعلان وہ کیا جائے جو معاشی اصولوں اور گنجائش سے مطابقت رکھتا ہو،ورنہ آخر میں ندامت ہی ہاتھ آئے گی،لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس حکومے کے معاشی منتظم اور مشیر بھی وہی ہیں جو سابق حکومت کے تھے ،کیا مثبت منزل مل جائے گی اس پر شبہ ہے۔