قومی فریضہ
پاکستان میں احتساب کو ہمیشہ متنازعہ اور تماشا بنایا گیا ہے جو تاحال جاری ہے ۔ میاں نواز شریف آئے تو زرداری اینڈ پارٹی کے خلاف کیسز بن گئے ۔ زرداری آئے تو پھر نواز شریف کے خلاف کیسز شروع ہو گئے ۔اب ایک نئی جماعت آئی ہے جس نے نواز شریف کی مسلم لیگ کو نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ نیب کرپشن کے کیسزپر کام کر رہا ہے دیکھنا یہ ہے واقعی کرپشن ہوئی ہے یا نہیں کیونکہ اس قسم کی کارروائی کا نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہتا ہے ۔ میاں نوازشریف اس وقت پر ضمانت پر ہیں ان کو دس سال سے زیادہ کی سزا ہو چکی ہے ابھی تک دو کیسز چل رہے ہیں ۔ مریم نواز سات سال کی سزا کی مستحق ٹھہری ہیں اور وہ بھی اس وقت ضمانت لئے ہوئے ہیں اس کے علاوہ کیپٹن صفدر بھی جیل سے ضمانت پر آئے ہیں ۔ ان میں سے کوئی بری نہیں ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حنیف عباسی عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان کا مقابلہ کرنے والے راجہ قمر السلام بھی جیل میں ہیں اوران کے خلاف کیس جاری ہے ۔اب شہباز شریف جو بار بار یہ کہتے رہے کہ مجھ پر ایک بھی پائی کی کرپشن ثابت ہو جائے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے اس کے علاوہ بھی وہ کئی بار اس قسم کی بڑھکیں مار چکے ہیں ۔ دوسری جانب نواز شریف دور میں بنائے گئے مقدمات کی وجہ سے اس وقت پی پی کے شرجیل میمن ٗ ڈاکٹر عاصم حسین اور آصف علی زرداری اور ان کی بہن عدالتو ں کے چکر لگا رہے ہیں ۔ پہلے سندھ کو نیب اور ایف آئی اے نے ٹارگٹ کیا ۔ اب پنجاب کی باری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئی تحریک انصاف کی حکومت سندھ میں احتساب کے عمل جاری رکھاہوا ہے سوال یہ ہے نیب واقعی آزادنہ کارروائی کر رہا ہے یہ غیر مرئی قوتوں کے کہنے پر چند لوگوں اور جماعتوں کو نشانہ بنا رہا ہے کرپٹ لوگ تو اس وقت اقتدار میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ نیب نے پنجاب اور سندھ میں کارروائیاں شروع کر دی ہیں ۔ میاں شہباز شریف اور ان کے فرنٹ مین جن میں احد چیمہ اور میاں نواز شریف کے فرنٹ مین فواد حسن فواد جیل میں بند ہیں ۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری چھتیس نشستوں پر ضمنی انتخاب سے بارہ دن پہلے ہوئی ہے ۔ اس موقع پر عجیب صورتحال ہے وزیر اطلاعات پنجاب اور وفاق دونوں بجائے قانون کی حکمرانی کی بات کرنے کے وہ یہ دعوے کر رہے ہیں کہ ن لیگ کی مزید گرفتاریاں ہونگی سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کو ایسے بیانات دینا چاہئیں ۔ نیب آزاد اور خود مختار ادارہ ہے تو پھر اس کو ڈکٹیشن نہیں لینا چاہئے دیکھنے میں یہ آیا ہے جیسے حکومت کی جانب سے گرفتاریوں کی بات سامنے آتی ہے تو اسی وقت کوئی بڑی کارروائی ہو جاتی ہے ۔ نیب اگر پی ٹی آئی حکومت کے اشاروں پر چل رہا ہے تو پھر ایسے ادارے کو تالے لگا دینے چاہیں ۔ملک کے بہت بڑے مسائل ہیں جن کو حل کرنا اتنا آسان نہیں ہے یہی وجہ ہے ان مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے نیب کو آگے کر دیا گیاہے جب مہنگائی پر شو ر مچنے کا ڈر ہوتا ہے تو کسی بڑے لیڈر کو جیل بھیج دیا جاتا ہے یا پھر ضمانت سے دیکر اسے بری کر دیا جاتا ہے ۔ لوگ اپنے غم بھول کر ان سیاسی تماشوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی باتیں کرنے والے اس کے پاس جائیں گے بصور ت دیگر ان کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ گڈگورننس کے لئے حکومت نے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا ہے اتنی عجلت میں کام شروع کیا ہے جیسے یہ حکومت پانچ سال کیلئے نہیں بلکہ ایک آدھ سال کیلئے اقتدار میں آئی ہے ۔ آتے ہی تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا۔ تجاوزات کے خلاف کام کرنا بہت جرات والا کام ہے۔ سوال یہ ہے جلدی کس بات کی تھی۔ پہلے انتظار کر لیا جاتا ہے انہیں نوٹسز دیئے جاتے ہیں اگر ان جواب تسلی بخش نہ ہوتے توضرور کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے جو لوگ کرپشن کرتے ہیں ان کو تو کوئی بھی محب وطن برادشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے رہنمائوں کی گرفتاریاں تو ہو رہی ہیں مگر فیصلے جلد ہونا بھی ضروری ہے ۔ نیب کو چاہئے کہ وہ کے پی کے اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو اسی طرح قانون کے شکنجے میںلائے جیسے وہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کو لا رہا ہے ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح سابق چیئرمین چوہدری قمر زمان کی طرح کی موجودہ چیئرمین جاوید اقبال پر اس قسم کے الزامات لگائے جائیں ۔کٹھ پتلی چیئرمین نیب نہیں اصلی چیئرمین نیب کی ضرورت ہے۔
احتساب کا عمل ہوگا تو ملک سے بدحالی ختم ہوگی کرپشن کرنے والے کسی کے نہیں ہوتے وہ جائزو ناجائز ملکی خزانے کو لوٹتے ہیں پچھلے کئی سالوں سے یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ مال بنانا ہے تو سیاست میں آ جائیں ۔ آصف علی زرداری اور اور ان کی بہن ٗ ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن پر اربوں روپے فراڈ کے کیسز ہیں اسی طرح میاں نواز شریف اور میا ں شہباز شریف اور ان کے حواریوں پر اربوں روپے کرپشن کے الزامات ہیں ۔ عدالتی کارروائی میں یہ امر ضروری ہوتا ہے پراسیکیوٹرز کیس کو کس طرح نبھاتا ہے ۔ ایمانداری سے کام کرنے اور سچ کو سچ کہنے اورٹھوس ثبوت کی بنا پر ہی مجرموں کو سزائیں مل سکتی ہے اور قوم فراڈکرنے والوں سے آزادی حاصل کر سکتی ہیں اگر محض گرفتاریاں آنیاں جانیاں ہوئیں تو پھر اس نیب جس پر پہلے انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں مزید کمزو ر ہو جائے گا ۔ لوگ پھر ان گرفتاریوں اور احتساب کے عمل کو فراڈ قرار دیکر مسترد کر دیں گے ۔ مقتدر قوتیں اگر کچھ کرنا چاہتی ہیں تو وہ کرپشن کو ختم کریں ضروری نہیں کہ سیاستدانوں میں یہ چیز پائی جاتی ہو جہاں بھی ہے اس کواکھاڑ پھینکا جائے مگر اپنے سمیت کسی کو مقدس گائے نہ بننے دیا جائے ۔ عدلیہ بھی یہ نہ دیکھے کہ سامنے کون ہے ان کو آنکھیں بند کرکے صرف اور صرف انصاف کرنا چاہئے اس سے بڑا اور کوئی قومی فرض نہیں ہوسکتا ہے ۔