ملکی سلامتی اور اہم فیصلہ
معاشرے کی تعمیروترقی میں حکومتی اور ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے اس لئے فلاح وبہبود کی تنظیمیں مختلف شعبہ ہائے زندگی جن میں تعلیم،صحت اور بنیادی سہولیات جیسے اہم پہلو موجودہیں ان میں سرگرم عمل ہیں ایسے تمام غیر ریاستی اورغیرحکومتی اداروں کیلئے این جی اوکا لفظ مستعمل ہے ۔ دنیا میں ایسے کئی فلاحی ادارے یا این جی اوز کام کررہی ہیں جن کا نیٹ ورک تقریباً ہرملک میں موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام کام کرنے والی کئی امدادی ایجنسیاں جن میں یو این ڈی پی، یونیسیف اور دیگرایسے ادارے شامل ہیں جو انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے پوری دنیا میں کوشاں ہیں۔ معروف عالمی ادارہ ریڈ کراس بھی انسانی خدمت کی ایک ایسی ہی بین الاقوامی مثال ہے جو دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں رنگ ونسل اورمذہب وملت سے ماورا ہوکر دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے۔ وطن عزیز میں بھی بہت سے ایسے فلاحی ادارے ہر شعبہ زندگی میں سرگرم عمل ہیں جن کی برسوں سے جاری کاوشوں نے لاکھوں ضرورت مندوں اور بے سہاروں کو امداد فراہم کی ۔ تھر کے صحرا میں آب رسانی کے منصوبوں سے لے کر جنوبی پنجاب کے علاقوں میں خواتین کو دستکاری سکھانے اور آزاد کشمیر کے ہولناک زلزلے کے امدادی کاموں تک این جی اوز نے ایک بھرپور اورفعال کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے ان نیک نام اداروں کی آڑ میں کئی ایسی این جی اوز بھی میدان میں آگئیں جن کا ایجنڈا کہیں اور سے طے ہوتا تھا ان این جی اوز کے تمام ڈائریکٹر اور کرتا دھرتا افراد جن کی اکثریت غیرملکیوں پر مشتمل ہے مشکوک ریکارڈ کے حامل ہیں۔ ان اداروں کو جن مقاصد کیلئے کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی یا ان کے پاس جن مخصوص شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے کا لائسنس تھا۔ انہوں نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرنا شروع کیا اور این جی اوز کو فراہم کی جانے والی رعایتوں کا ناجائز استعمال شروع کردیا۔ ان این جی اوز نے نہ صرف ملکی سیاست میں مداخلت کی بلکہ قومی سلامتی کے معاملے پر بھی رائے زنی شروع کردی جو ان کو دیئے گئے مینڈیٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی ، متعدد مشکوک ماضی رکھنے والے غیرملکی افراد کو ان این جی اوز کے تحت ویزے پر پاکستان بلایا گیا اور ان افراد نے ملکی قواعد و ضوابط کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنا کام جاری رکھا۔ ان تمام این جی اوز کی آئین سے منافی سرگرمیاں ملکی سلامتی کے ذمہ دار افراد کیلئے تشویش کا باعث بن رہی تھیں۔ جب اس بارے اعداد و شمار اور حقائق جمع کئے گئے تو معلوم ہوا کہ ان میں کام کرنے والے کئی افراد کسی بھی اجازت نامے کے بغیر بلوچستان اور قبائیلی علاقوں کے دوروں میں مصروف ہیں اور وہاں نام نہاد فلاحی کاموں کی آڑ میں میں ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس ضمن میں ان این جی اوز کو متعدد بار خبردار کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی اس روش کو ترک نہ کیا اورپھر آخری قدم کے طور پرحکومت نے 18 بین الاقوامی این جی اور پر پابندی عائد کردی اور ان کے ذمہ داروں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا جس کاتمام محب وطن حلقوں میں خیرمقدم کیا گیا مگر پاکستان کو شروع سے ہی ایک ایسے گروہ کا سامنا رہا ہے جو ہر بین الاقوامی ایجنڈے پر عمل کرنا اپنا نصب العین سمجھتا ہے ان مٹھی بھر افراد نے مختلف ملکی اور بین الاقوامی فورمز پر شورمچا کر اس فیصلے پر کڑی تنقید کی اور اسے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا حالانکہ یہ کسی بھی ملک کی داخلی خودمختاری کے اصولوں کے عین مطابق ہے کہ وہ اپنے ملکی مفاد کو پہلی ترجیح دے۔ ہماری مخصوص سماجی روایات اورمعاشرتی اقدار ہیں جن سے کھلواڑ کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی حکومت نے ایک دلیرانہ اور صائب قدم اٹھایا ہے جس کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت تھی۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ اپنے اس جرِأت مندانہ فیصلے پر قائم رہے اور اس ضمن میں ہرقسم کے ملکی اورغیرملکی دبائو کو یکسر مسترد کردے کیونکہ ملکی سلامتی اور ریاستی سالمیت ہر قسم کے ذاتی ایجنڈے سے بالاتر ہوتی ہے کسی بھی حکومت کا یہ فرض منصبی ہوتا ہے کہ اپنی داخلی خودمختاری پرکسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔