امریکی و ترک و سعودیہ تازہ کشیدگی اور پاکستان(2)
صدر ٹرمپ کا پرابلم ہے کہ وہ سعودیوں کو بلیک میل کرتے کرتے ان کی دولت بھی امریکہ میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ بقول ان کے سعودیہ 110 بلین ڈالر اسلحہ پر خرچ کرتا ہے۔ اس دولت سے اسلحے کے کارخانوں میں نئے رزق مواقع پیدا ہوتے ہیں جبکہ امریکہ کو اس سعودی اور خلیجی دولت کی شدید ضرورت ہے۔ اگر سعودیہ یہ دولت واپس لے گیا تو یہ روس و چین یا کسی اور ملک میں چلی جائے گی۔ امریکیوں سے رزق مواقع چھن جائیں گے اور دشمنوں کے پاس سعودی سرمایہ کاری جائے گی ’’اور‘‘ ملک جس کی طرف صدر ٹرمپ نے اشارہ کیا وہ صرف پاکستان ہے۔ اگر امریکی فوج سعودیہ و امارات و بحرین سے واپس جاتی ہے تو اس کی جگہ لینے کے لئے پاکستانی فوج مکمل تیار اور موجود ہے۔ اسلامی عسکری اتحاد جنرل راحیل شریف کے زیر قیادت اس ہدف کو آسانی سے حاصل کرے گا۔ جبکہ پاکستانی فوج ایران دشمن نہیں ہو گی۔ مگر عربوں کی حقیقی خیر خواہ اور نظریاتی ساتھی یقیناً ہو گی۔
عرب بادشاہتیں ایرانی عوام اور شیعہ مسلک کی دشمن ہرگز نہیں ہیں کہ شاہ سلمان نے آل شیخ علماء و شیوخ سے شیعہ فرقہ کے بارے میں جو فتوے دلوائے ہیں اس کے مطابق تمام مسالک کے شیعہ مسلمان ہیں اور سعودیہ کے لئے قابل احترام۔ مسئلہ صرف جارح ایرانی نیشنل ازم ایمپائر کے قیام اور عرب بادشاہتوں اور جغرافیوں کے انہدام کا ہے۔ تازہ صورتحال میں عرب بادشاہتیں اور پاکستان ایک دوسرے کے محتاج و مدد گار اور ساتھی ہیں۔ سعودیہ میں ہمیشہ آل سعود کی بادشاہت نے رہنا ہے ورنہ سعودیہ ٹوٹے گا اور داعش و القاعدہ کے قبضے میں نہ صرف ٹوٹا ہوا سعودیہ آئے گا بلکہ پورا مشرق وسطیٰ بھی جبکہ داعش اور القاعدہ عملاً شیعہ دشمن ہیں۔ ایران کو اور دنیا کو آل سعود انہدام کے بعد صرف داعش و القاعدہ ملیں گے۔
جمال خاشکجی صحافی کے مسئلے پر ترک و سعودیہ تعلقات میں مزید دوری پیدا ہو گئی ہے۔ صدر ٹرمپ بھی اس مسئلے کی آڑ میں شہزادہ محمد کو زیادہ بلیک میل کرنے میں مصروف ہیں مگر سعودیہ سے دفاعی معاہدے ختم کرنے ‘ امریکہ میں سعودیہ کی سرمایہ کاری ختم کرنے پر ہرگز تیار نہیں۔ اس سے عرب تیل اور سعودیہ کی سرمایہ کاری کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ ترک و سعودیہ کشیدہ تعلقات کی اصلاح کے لئے صرف شاہ فیصل کے بیٹے خالد الفیصل گورنر مکہ کردار ادا کر سکتے ہیں چونکہ ان کی ماں عفت استنبول کی ترک سعودی خاتون تھیں۔ مستقبل قریب میں شہزادہ خالد کا کردار ’’نمایاں‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور اگلے تین ماہ میں ولی عہد شہزادہ کے لئے کافی مشکلات دیکھ رہا ہوں۔ تازہ امریکی رویے نے خلیجی ممالک کو شاہ سلمان کی پشت پر لاکھڑا کیا ہے اور عرب ریاستیں جن میں افریقی عرب بھی شامل ہیں سعودیہ و امارات کیلئے زیادہ پرجوش ساتھی بن گئے ہیں۔ اگر ترک و سعودیہ تعلقات میں کشیدگی ختم ہوتی ہے تو ممکن ہے قطر و سعودیہ میں بھی صلح کا راستہ کھلے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس صرف امریکی بلیک میلنگ کی وجہ سے جانا پڑا ہے۔ یوں وزیراعظم عمران خان اور شہزادہ محمد بن سلمان اور شہزادہ محمد بن زید النہیان اور عرب ممالک مجموعی طور پر فطری اتحادی بن جاتے ہیں۔ (ختم شد)