ضمنی انتخابات کے نتائج! حکمران پی ٹی آئی کیلئے بڑا اپ سیٹ
قومی اسمبلی کی گیارہ اور صوبائی اسمبلیوں کی 23 خالی نشستوں پر ملک بھر میں ہونیوالے ضمنی انتخابات میں اگرچہ حکمران پی ٹی آئی کی مجموعی برتری برقرار رہی ہے تاہم ان انتخابات میں وزیراعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی دو نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی تین نشستیں محفوظ نہ کر پانا اس پارٹی کیلئے ایک بڑا اپ سیٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسکے برعکس ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی تین اور متحدہ مجلس عمل کی ایک نشست بڑھ گئی جبکہ خیبر پی کے اور پنجاب کے وزراء اعلیٰ اپنے آبائی حلقوں میں بھی پی ٹی آئی کی نشستیں نہ نکال پائے۔ سوات کی دونوں صوبائی نشستوں پر اور ڈیرہ غازیخان کی ایک صوبائی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جن کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کے امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ حکمران پی ٹی آئی کیلئے سب سے بڑا اپ سیٹ لاہور میں ہوا جہاں قومی اور پنجاب اسمبلی کی دو دو نشستوں پر اسکے مضبوط امیدوار مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے مدمقابل شکست کھا گئے۔ ان میں این اے 131 لاہور کا معرکہ سب سے زیادہ دلچسپ رہاکیونکہ وزیراعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی اس نشست پر پی ٹی آئی نے خواجہ سعدرفیق کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) ہی سے آئے ہوئے ایک مضبوط سیاسی گھرانے کے فرزند ہمایوں اختر خان کو نامزد کیا تھا جن کا انتخابی مہم کے دوران تو خواجہ سعدرفیق پر پلہ بھاری رہا مگر پولنگ والے دن انہیں عوامی مینڈیٹ کے ہاتھوں خواجہ سعدرفیق سے دس ہزار سے زائد ووٹوں کی لیڈ کے ساتھ شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ خواجہ سعدرفیق عام انتخابات میں اسی نشست پر عمران خان کے مدمقابل تھے اور عمران خان کو محض پانچ سو ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی جبکہ الیکشن کمیشن نے اس حلقے میں دوبارہ گنتی سے متعلق خواجہ سعدرفیق کی درخواست مسترد کردی تھی۔
لاہور میں دوسرے اپ سیٹ کا پی ٹی آئی کو حلقہ این اے 124 میں سامنا کرنا پڑا جہاں مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پی ٹی آئی کے امیدوار دیوان غلام محی الدین سے 46 ہزار 737ووٹوں کی واضح لیڈ کے ساتھ جیت گئے۔ قومی اسمبلی کی یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے چھوڑی تھی۔ اسی طرح لاہور سے دو صوبائی نشستوں پی پی 164‘ اور پی پی 165 پر بھی مسلم لیگ (ن) نے معرکہ مارا جہاں بالترتیب سہیل شوکت بٹ اور ملک سیف الملوک کھوکھر پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی کو بنوں سے وزیراعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جہاں متحدہ مجلس عمل کے رہنما اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی منتخب ہوئے۔ ان انتخابات میں پنجاب اسمبلی کیلئے مسلم لیگ (ن) کو پانچ اور پی ٹی آئی کو چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ ایک آزاد امیدوار منتخب ہوا۔ اسی طرح خیبر پی کے اسمبلی کی پانچ نشستوں پر پی ٹی آئی‘ دو پر اے این پی اور ایک نشست پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو کامیابی حاصل ہوئی جبکہ سندھ اسمبلی کے دونوں حلقوں میں پیپلزپارٹی کے نامزد امیدوار جیت گئے اور بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست پر بلوچستان نیشنل پارٹی اور دوسری نشست پر آزاد امیدوار کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق ان انتخابات میں سمندرپار پاکستانیوں نے پہلی بار رائے دہی کا حق استعمال کیا اور ای ووٹنگ کے ذریعہ ووٹ کاسٹ کیا۔ انکے ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 80 فیصد رہا۔
یہ ضمنی انتخابات پاک فوج کی کڑی نگرانی میں ہوئے جبکہ انتخابی نتائج مرتب کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کا وضع کیا گیا جدید نظام آرٹی ایس بھی مستعد رہا اس لئے ان انتخابات کے مکمل آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف ہونے پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ کسی بھی ضمنی انتخاب کے معاملہ میں عمومی تاثر یہی ہوتا ہے کہ اس میں ووٹر کا موڈ بھی بالعموم حکمران پارٹی کے امیدوار کے حق میں ہوتا ہے جبکہ ماضی میں ضمنی انتخابات میں اپنے امیدواروں کو بزور جتوانا حکمران پارٹیوں کا ’’طرۂ امتیاز‘‘ رہا ہے تاہم اب حکمران جماعت سمیت کسی کیلئے بھی روایتی انتخابی دھاندلی کی گنجائش تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اگر موجودہ ضمنی انتخابات میں وزیراعظم کی خالی کی گئی دو نشستوں اور وفاقی وزیر اطلاعات کی خالی کی گئی پنجاب اسمبلی کی نشست پر بھی حکمران پی ٹی آئی کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور خیبر پی کے اور پنجاب کے وزراء اعلیٰ کے آبائی حلقوں میں بھی پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس سے بڑے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات اور کیا ہو سکتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ کریڈٹ حکمران پی ٹی آئی کو ہی جاتا ہے کہ اسکے دور میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی بنیاد مضبوط ہوئی ہے تاہم ضمنی انتخابات کے نتائج حکمران پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کیلئے لمحۂ فکریہ بھی ہیں کیونکہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کیلئے جو ہوا چلی تھی جس کے باعث پی ٹی آئی کو وفاق اور صوبوں میں اقتدار کی منزل بھی حاصل ہوئی‘ وہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔ اگر پی ٹی آئی کو اپنے اقتدار کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی عوامی مقبولیت میں کمی کا جھٹکا برداشت کرنا پڑا ہے تو یہ صورتحال بہرصورت پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے گہرے غوروفکر کی متقاضی ہے۔
اول تو ان انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے کم تناسب پر بھی حکمران جماعت کو اپنا کتھارسس کرنا چاہیے کہ انکے بالخصوص نوجوان ووٹروں اور خواتین میں اپنی پارٹی کیلئے جوش و خروش کیوں کم ہوگیا ہے اور اس پارٹی کے عہدیداران‘ ارکان اسمبلی اور امیدوار ان ووٹروں کو گھروں سے نکال کر پولنگ بوتھوں پر کیوں نہیں لاپائے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی قیادت کو اب اپنی حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے بھی سنجیدگی سے سوچ بچار کرنا ہوگی کیونکہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد ہی پٹرولیم‘ گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے اور پھر منی بجٹ میں عائد کئے گئے نئے ٹیکسوں کے باعث ملک میں ایک دم مہنگائی کا سونامی آگیا تھا جس نے عملاً عام آدمی کی چیخیں نکلوادیں جبکہ ضمنی انتخابات سے پہلے پہلے حکومت کے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بھی عام آدمی پر مہنگائی سمیت متعدد مشکلات کی تلوار لٹک گئی۔ نتیجتاً عوامی حلقوں میں حکومتی پالیسیوں پر ہونیوالے منفی تبصروں سے بھی پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت متاثر ہوئی ہوگی چنانچہ گزشتہ روز کے ضمنی انتخابات پر بھی اسکے اثرات مرتب ہونا فطری امر تھا۔
اپوزیشن تو ضمنی انتخابات کے نتائج پر اس لئے بھی مطمئن ہوگی کہ اسکی قومی اور صوبائی نشستوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بے شک یہ معمولی اضافہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں نقب لگانے کیلئے اپوزیشن کا ممدومعاون نہیں ہو سکے گا تاہم اسکی حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کو اپنی ہی چھوڑی ہوئی بعض اہم نشستوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو پھر پی ٹی آئی کیلئے پیدا ہونیوالی یہ منفی فضا آئندہ انتخابات میں بھی اس کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے اپنی حکومتی پالیسیوں کی سمت درست کرنے کا یہی وقت ہے اس لئے اسے ضمنی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر جہاں اپنی تنظیمی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے وہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گوناں گوں عوامی مسائل کے حل کیلئے فوری عملی اقدامات اٹھانے کی راہ پر گامزن کرکے اپنے پارٹی ایجنڈے کے مطابق عوام کی خوشحالی اور قومی معیشت کی ترقی پر مبنی نئے پاکستان کی واضح لائن آف ایکشن بھی متعین کرلینی چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں تو منتخب قومی اور صوبائی ایوانوں میں پی ٹی آئی کی قیادت کی کسی بھی وقت آزمائش ہو سکتی ہے اس لئے اسے اپنی پارٹی اور حکومت کے کمزور پہلوئوں پر ابھی سے قابو پالینا چاہیے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یقیناً ایک نیا حوصلہ ملے گا جبکہ ضمنی انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مابین ہونیوالا انتخابی تعاون آئندہ عام انتخابات کے معرکے میں بھی برقرار رہا تو پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ ان انتخابات میں بہترین انتظامات کرنے اور انتخابات کے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انعقاد کو یقینی بنانے پر بہرصورت الیکشن کمیشن اور عساکر پاکستان مبارکباد کی مستحق ہیں تاہم بعض حلقوں میں نتائج کے اعلان میں تاخیر کرنے سے متعلق ان حلقوں کے امیدواروں کے الزامات بھی الیکشن کمیشن کو نظرانداز نہیں کرنے چاہئیں۔