وزیراعظم عمران خان سے گزشتہ روز وزیر خزانہ اسد عمر اور مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کمزور معیشت سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے اُنہیں ہدایت کی کہ کوشش کریں حکومتی پالیسیاں عام آدمی پر اثرانداز نہ ہوں۔ ملاقات میں وزیر خزانہ نے اُنہیں آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات پر بریفنگ دی اور سابق دورمیں لئے گئے قرضوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
95 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے محض راتوں رات نہیں اور نہ ہی پچھلی کسی ایک حکومت نے لئے، ملکی معیشت کی اس ابتری کی کم و بیش ماضی کی آمرانہ اور جمہوری تمام حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ صدر ایوب کے دور میں صنعتیں جڑ پکڑ رہی تھیں کہ بھٹو نے قومیا لیں۔ یوں ایک ایسا شعبہ جو برآمدات اور تجارتی خسارے کو پورا کر سکتا تھا، ہمیشہ کے لئے نہ صرف ختم ہو گیا بلکہ ، قومیائے گئے ادارے معیشت کی ’’بیڑی میں وٹے‘‘ ثابت ہوئے۔ اسکے بعد ہماری معیشت کبھی سنبھل نہ سکی، تجارتی خسارے اور غیر ملکی قرضوں میں اضافے کی دوڑ لگ گئی۔ اس خرابی کا مقابلہ کرنے کی بہترتدبیر یہ تھی کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع اور اس کی وصولی کے نظام کو مؤثر بنایا جاتا۔ مگر ماضی کی بیشترحکومتوںنے اس جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے کاروبار مملکت چلانے کا آسان حل تلاش کر لیا۔ یعنی بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی چلی گئیں۔ توانائی کے بحران کے باعث بچی کھچی صنعتیں بھی بیٹھ گئیں، بے روزگاری بڑھی اور مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ ڈالی۔ اب عوام نے ہر طرف سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کو اس اُمید پر ووٹ دئیے ہیں کہ وہ ان کی اجیرن زندگی میں آسانیاں لائے گی۔چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے وزیر خزانہ اور مشیر تجارت کو بجا ہدایت کی ہے کہ ورثے میں ملی کمزور معیشت سنبھالنے کی کوشش کرتے وقت سخت پالیسیوں اور درشت اصلاحی اقدامات سے گریز کیا جائے کہ عام آدمی پہلے ہی بڑی مشکل سے سانس لے رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ معیشت کی بہتری کیلئے سخت اقدامات کئے بنا کوئی چارا نہیں، پھر بھی توقع ہے کہ پالیسی میکرز ،پالیسیاں بناتے اور ضروری اقدامات کرتے وقت وزیر اعظم کی اس ہدایت کے مطابق تحریک انصاف پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024