منگل ‘ 6؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 16اکتوبر 2018ء
نواز شریف شناختی کارڈ نہ ہونے پر ووٹ کاسٹ نہ کر سکے
ایک تو یہ بھول چوک کی عادت ہمارے سیاستدانوں سے چھوٹتی نہیں۔ انتخابی وعدے ہوں یا سیاسی دعوے۔ اکثر یہ لوگ بھول جاتے ہیں اس لئے…؎
ہمی کریں کوئی صورت قریب آنے کی
سنا ہے ان کو تو عادت ہے بھول جانے کی
اب موجود حکومت بر سر اقتدار آئی تو قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر خود نامزد امیدوار عمران خان بنی گالہ سے ووٹنگ کے لئے اسمبلی آئے مگر شناختی کارڈ گھر بھول آئے۔ وہاں یہ معاملہ حسن وخوبی سے طے ہوا۔ سپیکر کی ذاتی اجازت سے انہوں نے ووٹ ڈالا۔اب گزشتہ روز کے ضمنی الیکشن میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اتنی دور رائے ونڈ سے ووٹ ڈالنے آئے۔ پولنگ سٹیشن میں جب شناختی کارڈ طلب ہوا تو پتہ چلا وہ لائے ہی نہیں۔ بس یہاں بھول چوک یہ ہوئی کہ انہیں جاننے کے باوجود ووٹ کاسٹ نہیں کرنے دیا گیا۔ حالانکہ پولنگ سٹاف اور پولنگ ایجنٹ تک سب انہیں جانتے تھے۔ بس ذرا دل بڑا کرنے کی ضرورت تھی۔ اگر انہیں اجازت دی جاتی تو کیا فرق پڑنا تھا۔ میاں جی بھی خوش ہو جاتے کہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی عوام انہیں بھولے نہیں۔ مگر افسوس وہ نہایت افسردگی کے ساتھ ووٹ ڈالے بغیر واپس چلے گئے۔ اس لئے آئندہ کوئی بھی سیاستدان جب ووٹ کاسٹ کرنے نکلے تو پہلے اپنی جیبیں چیک کر لے کہ شناختی کارڈ موجود ہے یا نہیں تا کہ ووٹ کاسٹ کر سکے۔ نجانے کیوں ہمارے ہاں بڑے دل والا رویہ اپنانے سے لوگ گھبراتے ہیں۔کیا ہم نے مخالفت کا مطلب دشمنی سمجھ لیا ہے۔
٭…٭…٭
منشا بم گرفتاری دینے سپریم کورٹ پہنچ گیا
یہ قانون کا خوف تھا یا پولیس کی خاطر مدارت کا کہ منشا بم نے گرفتاری کافیصلہ کر لیا یا کہ اوپر سے کوئی یقین دہانی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ پہنچ کر موصوف فرماتے ہیں کہ وہ پولیس سے چھپ کر آئے ہیں۔۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ منشا بم‘ نوری نت قسم کے لوگ پولیس کو زرخرید سمجھ کر ہمیشہ خوش کیوں ہوتے ہیں۔ جب قانون کے شکنجے میں آجائیں تو اسی پولیس سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں۔ منشا بم جس طرح چھپ چھپا کر سپریم کورٹ آیا اس سے تو پتہ چلتا ہے یہ بم نہیں کوئی چلا ہوا کارتوس ہے۔ کہاں زمینوں پرقبضے‘ کہاں یہ جان کی امان پائوں والی کیفیت۔ اگر اسے قانون کی اتنی پاسداری ہوتی تو یہ پہلے حکم پر ہی عدالت میں پیش ہوجاتا مگر مال و دولت اور طاقت کا گھمنڈ اور پھر حکمرانوں کی دوستی اچھے بھلے انسان کا دماغ عرش پر پہنچا دیتی ہے۔ یہ منشا بم کیا چیز ہے۔ پولیس تو ویسے ہی حکمرانوں کے چمچوں اور کڑچھوں پر ہاتھ نہیں ڈالتی کہ کہیں اپنے ہاتھ نہ کٹنے لگیں۔ لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ رہی بات زمینوں کی تو وہ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ہماری آبائی ہیں۔ حالانکہ 1947ء سے قبل کے کھاتے اگر دیکھیں تو ان زمینوں کے مالک نتھو رام یا ہربند سنگھ نکلتے ہیں جو شاید قیام پاکستان کے بعد راتوں رات مسلمان ہو گئے تھے کیونکہ یہ سب زمینیں بھی بعدازاں کاغذات ملکیت میں نہایت مہارت سے مسلمان ہو گئی تھیں۔
ہم بولتے کم اور کام زیادہ کرتے ہیں:وزیراعلیٰ پنجاب
ہونا بھی یہی چاہیے کہ کام ہوتا نظر آئے ورنہ بلندبانگ دعوے تو بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ عملی طور پر کام کوئی کوئی کرتا ہے۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں یہی شکوہ ہے کہ وہ خاموش طبع ہیں۔ معلوم نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ۔ صرف شکل و صورت دیکھ کر کوئی فیصلہ کرنا غلط ہے۔ کئی سنجیدہ لوگ دوست احباب کے ساتھ سنجیدہ مگر گھر والوں کے ساتھ نہایت خوش مزاج ہوتے ہیں۔ یعنی دوسرے لوگوں سے ذرا رکھ رکھاؤ رکھتے ہیں۔ عثمان بزدار صاحب بھی دیکھنے میں سنجیدہ لگتے ہیں مگر کیا معلوم وہ ہنس مکھ اور مخولیے ہوں۔ آخر میاں نواز شریف بھی تودیکھنے میں نہایت سنجیدہ اور روکھے نظر آتے ہیں مگر دنیا جانتی ہے کہ وہ نہایت ہنسی مذاق کرنے والے شخص ہیں۔ ان کی محفل ہمیشہ قہقہوں سے گونجتی رہتی ہے۔ وہ لطیفے اور جگت بازی پر دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ شعر و شاعری سے اچھا خاصہ شغف بھی رکھتے ہیں۔ چونکہ عثمان بزدار ابھی نئے نئے سامنے آئے ہیں اس لئے ذرا سی جھجک محسوس کرتے ہوں گے مگر کوئی بات نہیں جلد ہی وہ بھی ہنستے مسکراتے مزاحیہ انداز میں بات کرتے نظر آنے لگیں گے۔ فی الحال تو ان کی اس بات میں وزن ہے ۔وہ اپنے قائد کے فرمان کے مطابق کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔ انہیں اسی لیے اپنے قائد کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے کہ وہ باتیں کم اور کام زیادہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔امید یہی رکھنی چاہیے کہ وہ جلد ہی اپنے قائد اور عوام کو کچھ کر کے دکھائیں گے اور پاکستان میں ایک بار پھر پنجاب کی ترقی کی مثالیں دی جانے لگیں گی۔ مگر کیا وہ اسے عثمان سپیڈ کا نام دے پائیں گے ۔
٭…٭…٭
شہباز شریف ایسے کمرے میں ہیں جہاں دن اور رات کا پتہ نہیں چلتا: تہمینہ درانی
یہ تو بڑی زیادتی ہے ، نیب والوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ۔ میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں ۔ وہ ایک سیاسی رہنما اور سابق حکمران جماعت کے صدر بھی ہیں ۔ ان کے ساتھ یہ نازیوں والا سلوک نہیں ہونا چاہیے ۔ کیا اس وقت پاکستان میں ہٹلرازم کو فروغ دیا جا رہا ہے میاں شہباز شریف کی حالت کے بارے میں اگر کوئی اور یہ بات کرتا تو لوگ اسے سیاسی بیان بازی کہہ سکتے تھے ۔ مگر یہ بات ان کی اہلیہ کر رہی ہیں جو ظاہر ہے اپنے مجازی خدا کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہوئی ہوں گی۔ مخالفین جواباً کہہ سکتے ہیں کہ کیا میاں جی کو فائیوسٹار ہوٹل والی سہولتیں دی جائیں ۔ تو عرض ہے کہ مسئلہ فائیو سٹار ہوٹل کا نہیں ، آخر زرداری جی کو ، ڈاکٹر عاصم کو شرجیل میمن کو بھی تو بے شمار سہولتیں دی جاتی رہی ہیں ، اب میاں جی کو جان بوجھ کر ایسی جگہ بند کرنا بھی ظلم ہے جہاں ہوا اور روشنی داخل نہ ہو سکے ۔ پہلے دور میں شاہی قلعہ کی اذیت گاہیں مشہور تھیں ۔اب لگتا ہے نیب والوں کے زیر اہتمام نجی ٹارچر سیل کھولے جا رہے ہیں جہاں ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو دن میں بھی تارے نظر نہیںآتے رات کی تو بات چھوڑ دیں ۔ ویسے بھی نیب والوں کے خلاف چارج شیٹ بڑھتی جا رہی ہے۔اعلیٰ عدالتیں تک ان کے غیر قانونی روئیے پر ریمارکس دے چکی ہیں ۔ شاید حکومت کی آشیرباد کی وجہ سے نیب والے شیر ہو چکے ہیں ۔مگر یاد رہے شیر کو بکری بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔
٭…٭…٭