عمران خان نے دھاندلی کرنے کا جو نسخہ (ن) لیگ پر آزمایا تھا‘ اس کی ’’ڈبل ڈوز‘‘ اب اسے مل رہی ہے۔ ادلے کا بدلہ۔ شریف برادران ادھار بمعہ سود لوٹانے کے ماہر ہیں۔ خان نے سابقہ عبوری حکومت کے وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچروں کا الزام لگایا تھا۔ یہ جملہ اس قدر تسلسل‘ وثوق اور یقین سے بولا گیا کہ عام آدمی کو کچھ کچھ یقین ہونے لگا تھا۔ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا ’’پینتیس پنکچرز ان پنجاب‘‘ ردیف‘ قافیہ کے علاوہ Allitration کی الٹریشن! (ہم وزن الفاظ کی تکرار سے عبارت میں حسن پیدا کرنا) اگر خان بات کو نامکمل اور ادھورا چھوڑ دیتا تو سیاسی طورپر اسے فائدہ پہنچتا جیسے بھٹو مرحوم نے تاشقند معاہدے کی بلی کا ذکر تو کیا مگر کبھی بھی اسے تھیلے سے باہر نہ نکالا۔ سادہ لوح خان اس کے مضمرات نہ سمجھ سکا اور جوڈیشل کمشن کا مطالبہ کر بیٹھا۔ جب کمشن نے ثبوت مانگا تو اس کا ’’ہاسا‘‘ نکل گیا۔ مرتضیٰ پویا کو ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر نے بتایا تھا جس نے تحریک انصاف کے کسی شخص کے کان میں سرگوشی کی۔ اس افواہ کو بطور ثبوت پیش کیا گیا۔ اسی طرح اردو بازار میں بیلٹ پیپر چھپوانے کی بات ہوئی۔ الزام کنندگان کو نہ پرنٹنگ پریس کا پتہ تھا نہ مالک کا نام معلوم تھا۔ رقم کی ادائیگی کیسے ہوئی۔ کس نے کی‘ اس پر بھی غور نہ کیا گیا۔ الزام غلط ثابت ہونے پر جو شرمندگی ہوئی جو خفت اٹھانا پڑی وہ سب جانتے ہیں۔
اب کہ ملزم مظلوم بن گیا ہے اور الزام کنندہ پر دھاندلی کا الزام لگا ہے۔ فرد جرم کیا ہے؟ لاڈلے کو جتوانے کیلئے ہمہ مقتدر طاقتوں نے نتائج میں ہیر پھیر کیا ہے۔ ووٹنگ کے بعد اپوزیشن کے ایجنٹوں کو حکماً باہر نکال دیا گیا اور اس کے بعدجھرلو پھیرا گیا‘ فارم 45 بروقت نہ دیاگیا۔ آر ٹی ایس سسٹم کو جان بوجھ کر خراب کیاگیا تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں وغیرہ۔ عزیزی بلاول نے جب اسمبلی میں عمران خان کو ’’سلیکٹ‘‘ وزیراعظم کہا تو خان نے تالیاں بجا کر اسے داد دی۔ وہ سلیکٹ کو ایلکٹ سمجھے۔ ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا۔ چونکہ اپوزیشن کو الزام کی صحت کا علم ہے۔ اس لئے انہوں نے جوڈیشل کمشن کی بجائے پارلیمانی کمشن کا مطالبہ کیا ہے۔ اس میں بڑی حکمت کارفرما ہے۔ پہلے میں فیصلے کی شکل میں ’’شٹ اپ کال‘‘ ہوتی ہے۔ کوئی اس پر منفی ردعمل ظاہر نہیں کر سکتا۔ عوام میں بھی اسے قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے فیصلوںپر بحث جاری رہتی ہے جو نار جہنم کی طرح کبھی ختم نہیں ہوتی۔
پارلیمان نے جو کمیٹی بنائی ہے اس میں غالباً دس دس ممبران ہیں۔ دس حکومت کے اور اتنے ہی مخالف پارٹیوں کے۔ حکومت نے کمال ہوشیاری سے وزیردفاع پرویز خٹک کو اس کا چیئرمین نامزد کیا ہے۔ خٹک گو اٹک کے دوسرے کنارے کا باسی ہے مگر خاصا چٹک ہے۔ اسے پتہ ہے کہ بالآخر کیا رول ادا کرنا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ممبران اپنی پارٹی کے مؤقف سے کیسے پیچھے ہٹیں گے؟ کیا تحریک انصاف والے یہ مانیں گے کہ واقعی دھاندلی ہوئی ہے۔لہٰذا الیکشن ازسرنو ہونے چاہئیں اور جنہوںنے ’’جرم‘‘ کیا ہے‘ ان کو قرارواقعی سزا ملنی چاہئے۔ یا مخالف فری کہے گا ’’ہم سے بھول ہوگئی‘ ہمکا معافی دیدو۔‘‘ ہم اپنے سابقہ کالموں میں کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ ہر جرم ثابت کرنے کیلئے مؤثر شہادت درکار ہوتی ہے جو اکثر دستیاب نہیں ہوتی۔ پارلیمنٹ ٹی آر او جو بھی بنائے‘ ان میں پوچھا جائے گا کیا الیکشن میں منظم دھاندلی ہوئی؟ بالفرض ہوئی ہے تو کس نے کی؟ ہزاروں پریذائیڈنگ افسروں اور بے شمار ROS کو کس نے بلا کر کب اور کس طرح یہ حکم دیا کہ الیکشن کے نتائج میں ردوبدل کرکے عمران خان کو جتوانا ہے۔ کیا عمران خان ’’شریک جرم‘‘ تھا۔ اگر اکا دکا واقعات ہوئے ہیں تو اس کا فائدہ کس فریق کو ہواہے۔ اپوزیشن جن حلقوں سے جیتی ہے‘ وہ کیسے دھاندلی سے بچ گئے۔ لاتعداد آزاد امیدوار جیت گئے۔ ان کا ’’مکو کیوں نہ ٹھپا‘‘ گیا؟
ایک طویل بحث کا آغاز ہوگا۔ اصولاً سب الیکشن رکوانے والے افسران کو بلا کر پوچھنا چاہئے کہ ان کے حلقے میں کوئی دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں۔ اس کا جواب سب کو معلوم ہے۔ وہ صریحاً انکار کر دینگے۔ کوئی شخص بھی اپنے خلاف شہادت نہیں دیتا۔ RTS ناکام ہو گیا۔ اسکے ذمہ دارکا بالفرض تعین بھی کر لیا جائے تو یہ کیسے ثابت ہو گا کہ اس کا فائدہ صرف عمران خان کو ہوا ہے۔ اس صورت میں عمران کا ملوث ہونا بھی ثابت کرنا پڑے گا۔ چونکہ عمران اقتدار میں نہیں تھا وہ ہزاروں کی تعداد میں افسران سے کیسے ساز باز ہو سکتا تھا۔ ان سے ملاقات کیسے کر سکتا تھا۔ بالفرض پیغام دیا گیا تو پیغام رسان کون تھا؟ اپوزیشن والے جس طرف اشارہ کر رہے ہیں‘ اس کا سب کو علم ہے۔کھل کر بات کرنے سے ڈرتے ہیں اور انکے پر جلتے ہیں ‘ ایسا ممکن نہیں ہے! اس قسم کی قوتیں ادھورا کام نہیں کرتیں۔ اگر ایک کام کرنا ہی ہے تو اسے بھرپور طریقے سے کیوں نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر سکا۔ اسے آزاد امیدواروں کی منت سماجت کرنا پڑی۔ اپنے سنہری اصولوں کو خیرباد کہتے ہوئے اور اپنے کہے ہوئے الفاظ کونگلتے ہوئے اسے ان پارٹیوں سے بھی الحاق کرنا پڑا جنہیں یہ سکیورٹی رسک سمجھتا تھا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024