بریفنگ دینے والے صاحب تھے تو ڈاکٹر لیکن اگر وہ ذاکر ہوتے تو اور بھی کامیاب ہوتے۔ ویسے کامیاب ترین انسانوں میں ان کا اب بھی شمار ہوتاہے۔
انہوںنے لیپ ٹاپ کی مدد سے ملٹی میڈیا بریفنگ شروع کی۔ وہ معذرت خواہ تھے کہ نفس مضمون کو اجاگر کرنے کے لئے انہیں یہ تصاویر دکھانا پڑی ہیں جن پر انسان نظر ڈالے تو اس کی برداشت جواب دے جائے مگر ان کا کہنا تھا کہ آپ سب اصحاب بزرگی کی عمر میں ہیں، اس لئے اخلاقی طور پر یہ تصاویر دکھانے میں کوئی ہرج نہیں البتہ مریضوں کے چہرے نہیں دکھائے جائیں گے۔اگر بات صرف تصاویر دکھانے تک محدود رہتی تو ان کے کوئی اچھے برے اثرات مجھ پر نہ پڑتے کیونکہ مجھے کچھ نظر ہی نہ آ رہا تھا مگر ڈاکٹرصاحب نے ظلم یہ کیا کہ ہر تصویر پر کمنٹری شروع کر دی۔ سچ کہتا ہوں میں کبھی چھپ چھپا کر بھی نہیں رویا، اپنے کسی پیارے کی موت پر بھی نہیں رویا لیکن اب جو کچھ سن رہا تھا، اس نے مجھے رلا کررکھ دیا۔ میرے آنسوبہے چلے جا رہے تھے۔ میرا چہرہ تر بتر ہو گیا۔ کمرے میں نیم تاریکی کی وجہ سے میری عزت رہ گئی۔
آیئے میں آپ کو بھی رلاتا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب جو تصویریں دکھا رہے تھے۔ وہ ان خواتین کی تھیں جنہیں چھاتی کا سرطان لاحق تھا، بعض کی حالت اس قدر بگڑ گئی تھی کہ پوری چھاتی میں کیڑے پڑ گئے تھے اور زخم سے ناقابل برداشت بو اٹھ رہی تھی۔جسم کا گوشت جگہ جگہ سے اکھڑ گیا تھا، وہ کسی کی ماں تھی، کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی۔یہ صورت حال معاشرے میں مجھے اور آپ میں سے کسی کو بھی پیش آسکتی ہے، دعا ہے کہ اللہ معاف رکھے اورا س عذاب سے بچائے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایسے مریضوں کو دیکھ کر نرسیں چیخیں مار کر کمرے سے بھاگ اٹھتی ہیں۔
ڈاکٹر شہر یا ر ملک کے نامور ماہر سرطان ہیں۔ اپنی پچیس سالہ ملازمت کے دوران ایک لاکھ مریضوں کا علاج کر چکے ہیں اور ان کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں ۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہوںنے نجی شعبے میں ایک ایساہسپتال بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے جہاں کسی مریض کے علاج سے صرف ا سلئے انکار نہیں کیا جائے گا کہ اسے تو بس مرنا ہے۔ ا س کے علاج کا کیا فائدہ۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میںکینسر کے مریض زیادہ ہیں اور علاج کی سہولتیں بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ لواحقین کی مالی برداشت سے باہر۔ عمران خاں نے اپنی والدہ کا دکھ دیکھا اور پھربظاہر ایک ناممکن کام میں ہاتھ ڈالا۔ ان کے لئیے یہ کام ا س لئے بھی مشکل تھا کہ وہ خود اس مرض کی پیچیدگیوں اور اس کے علاج سے شناسا نہ تھے مگر انہوںنے ایک معجزہ رقم کیا اور لاہور کا پہلا ہسپتال اب کئی برسوں سے مریضوں کے علاج میں مصروف ہے ۔ بات کہنے کی نہیں ۔ دعوے کی بھی نہیں بلکہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس ہسپتال میں بیشتر مستحق مریضوں کا علاج مفت ہو رہا ہے جن پر ہسپتال انتظامیہ کو کروڑوں کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان دوسرا ہسپتال بھی بنا چکے ہیں اور تیسرے کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔ اللہ کرے وہ جلد کامیاب ہوں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں مریض زیادہ ہیں اور علاج کی سہولتیں کئی گنا کم ہیں ، بھارت میں کینسر کے تین چار سو ہسپتال ہیں، صرف دلی شہر میں ڈیڑھ درجن کے قریب ہیں۔ لاہور کے قریب چندی گڑھ میں چھ کینسر ہستال ہیں۔ پاکستان میں کینسر کے علاج کے کل مراکز ستائیس ہیں جن میں صرف ایک بڑا ہسپتال ہے ۔ہمارے ہاں صرف پنجاب میں کینسر کے مریضوں کی سالانہ تعداد پونے دو لاکھ کے لگ بھگ ہے اور ملک میں صرف دس ہزار مریضوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے حکومت اور نجی شعبے کے کان کھڑے ہونے چاہیئں۔ سنگین خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ پہلے تو کینسر کی تشخیص کی سہولتوں کی فراہمی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اب تک تو کسی کو مرض کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب مرض آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے۔ اور ہر ہسپتال ا سے لا علاج قرار دے کر مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ وہ دو نکات پر خاص طور پر توجہ دے رہے ہیں کہ ایک تو مرض کی تشخیص بر وقت ہو جائے، دوسرے کسی کو لاعلاج سمجھ کر موت کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے بلکہ آخری لمحات میں اس کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کی جائے جو کہ ناممکن کام نہیں۔ کینسر ہسپتال لاکھوں یا کروڑوں کاکھیل نہیں اربوں کا خرچہ ہے اور کوئی حکومت یا کوئی ایک شخص اپنی جیب سے اس کٹھن کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔عمران خان نے بھی زیادہ تر عطیات اکٹھے کئے اور ڈاکٹر شہریار بھی مخیر طبقے کی طرف دیکھ رہے ہیں، رائے ونڈ روڈ پر ستائیس ایکڑ پر ان کا مجوزہ ہسپتال زیر تعمیر ہے۔ اس کے چار بلاک ہوں گے۔ کام کی ابتدا چار سال قبل کی گئی اور اب پہلا بلاک سروس کے لئے تیار ہے جس میں ہر قسم کے مریضوں کو داخل کیا جا سکے گا۔ ابتدائی طور پر چار سو مریضوں کی ریڈی ایشن کی جائے گی اور پھر ایک سو مریضوں کو داخل کیا جاسکے گا ۔ یہ دونوںمراحل جنوری اور فروی میں مکمل ہو جائیں گے ، انہوںنے بتدریج پانچ مشینیں خرید لی ہیں ،کچھ ہسپتال پہنچ گئی ہیں کچھ کی ایل سی کھل چکی ہے۔ ان مشینوں کے آجانے سے پنجاب میں کینسر کے علاج کے لئے ایک دم سو فیصد سہولتوں کااضافہ ہو جائے گا۔تشخیص کے دو موبائل یونٹ کام کر رہے ہیں اور مختلف دور افتادہ اضلاع میں خواتین کے چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لئے میمو گرافی کی جا رہی ہے۔ملک میں کئی مریضوں کو ریڈی ایشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہسپتال میں مشینوں کی تنصیب کے لئے چار مخصوص بنکر تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ ان پر کئی کروڑ کاتو صرف لوہے کا سریا لگا ہے جو مخیر حضرات نے عطیہ کیا ہے۔ عطیات اکٹھا کرنے کا عمل حوصلہ افز ا ہے ، ایک ہوٹل کے بیرے نے اپنی ٹپ کے دو سو باون روپے جیب سے نکال کر دے دئے تو ایک صاحب خیر نے اکیلے کئی ہزار ٹن سریا عطیہ کردیا۔ کوئی سیمنٹ کی بوریاں لا رہا ہے اور کوئی اینٹیں فراہم کر رہا ہے۔ ایک ادارے نے بیس کروڑ کی قیمتی مشین خرید کر دے دی ہے۔ اس وقت ملک میںریڈی ایشن کے مریضوں کو چار سے چھ ماہ تک ا نتظار کرنا پڑتا ہے اورا س دوران ان میں سے بیشتر ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہیں مگر ڈاکٹر شہر یا کا کینسر ہسپتال چند ماہ بعد سالانہ دس ہزار مریضوں کو ریڈی ایشن کی سہولت فراہم کر سکے گا اور واضح رہے کہ یہ سب علاج سو فیصد فی سبیل اللہ ہو گا کیونکہ اس کے لئے مخیر طبقہ بھی اللہ کی راہ میں دل کھول کر عطیات دے رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ چل نکلے تو کیا امیر اور کیا غریب ہر کسی کا علاج باکل مفت ہو گا اور شفا تو اللہ کی ذات کے ہاتھ میں ہے۔ڈاکٹر شہر یا اور ان کی ٹیم بس اپنی سی کوشش کر رہی ہے اور یہ کوشش اس لائق ہے کہ ہم ان کی پذیرائی کریں ۔ ان کے ہسپتال کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ڈاکٹر شہر یاراپنے ارادوں میں مخلص ہیں اور کینسر سے تڑپتے مریض ہماری مدد کے مستحق ہیں تو ہم ان کے لئے وہ کر گزریں جو ریاست مدینہ میں مواخات کی مثال قائم کی گئی تھی۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024