انگریز دور میں غریب نواز بجٹ پیش کیا
بابو عمران قریشی
نوابزادہ لیاقت علی خان رکن الدولہ شمشیر جنگ نواب رستم علی خان کے صاحبزادے تھے۔اُن کی ولادت 1892 ء میں کرنال میں ہوئی۔اُن کے آبائو اجداد ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان آکر آباد ہوگئے تھے۔ان کا سلسلہ نسب نوشیرواں عادل سے ملتا ہے۔نواب رستم علی خان یوپی کے جاگیر دار تھے اورزیادہ وقت اُن کا وہیں گزرتا تھا۔خان لیاقت علی خان نے بھی زیادہ وقت یو پی میں گزارا۔1918 ء میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔گھر والوں کی خواہش تھی کہ آئی سی ایس کر لیں مگر اُنہوں نے انگلستان جانے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ آکسفورڈ سے قانون کی ڈگری حاصل کرکے وکالت کا آغاز کیا۔1923ء تک پانچ سال کا عرصہ وہیں گزرا ۔اس دوران سیاست میں بھر پور حصہ لے کر انڈین مجلس کے صدر بن گئے۔ایس پی میمن نے انہیں مسلم لیگ کا اُبھرتا ہوا ستارہ قرار دیا۔ہندوستان واپس آکر تعلیمی ،معاشرتی اور اصلاحی کاموں میں بے حد دلچسپی لینے لگے۔1924ء میں پہلی مرتبہ مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں شرکت کی۔1926ء میں انہوں نے یوپی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور ممبر منتخب ہوگئے۔۔چھ سال تک اسمبلی کے نائب صدر رہے اور کُل ہند مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔اس قدر لگن سے کام کیاکہ قائد اعظم نے انہیں اپنا دایاں بازو کہتے ہوئے کہا تھا’’خان لیاقت علی خان نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات ایک کر دیئے ۔وہ اگر چہ نوابزادے ہیں لیکن وہ عام انسانوںکی طرح کام کرتے ہیں۔میں دوسرے نوابوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ اُن سے سبق حاصل کریں‘‘۔
ٍٍ1940ء میں خان لیاقت علی خان مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس کے جلد ہی بعد مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کے لیڈر چنے گئے۔جب 1945ء میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویول نے شملہ کانفرنس طلب کی تو وہ مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے اس میں شریک ہوئے۔ہندوستان کی عارضی حکومت کی کابینہ میں مسلم رہنما کی حیثیت سے خان لیاقت علی خان کو شامل کیا گیا اور وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔انگریزوں کے دور میں پہلے ہندوستانی کی حیثیت سے جو بجٹ پیش کیا اس کو غریبوں کا بجٹ قرار دیا گیا۔گو کہ سرمایہ دار طبقہ اس بجٹ سے بہت ناراض ہوا۔تقسیم ہند کے بعد 15اگست کو وزیر اعظم پاکستان کے طور پر حلف اٹھایا اور آگے چل کر اعلیٰ قابلیت ،سنجیدگی،متانت،تنظیمی قابلیت اور روشن خیالی کا ثبوت دیا۔قائد اعظم کی وفات کے بعد کے نازک دور میں آپ نے اعلیٰ طریقہ سے قوم کی قیادت سنبھالی۔پنجاب مہاجر کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے مہاجرین کی آباد کاری کے کام کی خود نگرانی کی۔انتظامی ڈھانچہ کی تشکیل معاشی زندگی کی بحالی بجٹ کی تیاری کشمیر کی جنگ داخلی انتشار پر کنٹرول بھارتی سازشوں کے خلاف دفاع غرضیکہ تمام درپیش مسائل میں قائد اعظم کے دست راست تھے اور قوم کی رہنمائی کرتے تھے نوابزادہ لیاقت علی خان کو ایسے نازک وقت میں قوم کی قیادت سنبھالنا پڑی جب قائداعظم کی وفات کی وجہ سے لوگوں کے حوصلے بالکل پست ہورہے تھے۔ملک کو بے پناہ مشکلات کا سامنا تھا۔کشمیر کی جنگ جاری تھی۔حیدر آباد دکن پر بھارت نے جبراً قبضہ کر لیا تھا۔ملک کی سیاسی صورت حال میں بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔مسلم لیگ داخلی انتشار کا شکارہورہی تھی۔ملک کیلئے اسلامی دستور کے حق میں تحریکیں چل رہی تھیں۔قائد ملت نے قرار داد مقاصد پاس کروا کے اپنے چار سالہ دور میں ان تمام مسائل کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ہندو مسلم فسادات کو روکنے کیلئے لیاقت نہرو معاہدہ پر دستخط کئے۔لندن کا دورہ کرکے برطانیہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کئے۔مئی 1950ء میں امریکہ کا دورہ کرکے وہاں کے عوام اور حکمرانوں کو پاکستان کے موٗقف اور پس منظر سے آگاہ کیا۔اسلامی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں بھر پور کردا راد ا کیا۔
1951ء میں جب بھارتی فوجیں پاکستانی سرحدوں پر جمع ہو رہی تھیں تو پوری قوم کو اس خطرے سے آگاہ کرنے اور ان کے حوصلے بڑھانے کی خاطر قائد ملت نے ملک گیر دورہ کیا۔اس سلسلہ میں 16اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان جب راولپنڈی کے کمپنی باغ میں تاریخی جلسے سے خطاب کرنے کیلئے ڈائیس پر آئے تو حاضرین نے زبر دست استقبالیہ نعرے لگائے ۔ابھی بمشکل برادران ملت کے الفاظ ادا کئے تھے کہ ہزاروں افراد کے اجتماع میںآپ کے سینہ میں گولیاں اتار دی گئیں اور آپ ڈائیس پر گر پڑے۔ فوراًملٹری ہسپتال لے جانے پر بھی آپ جانبر نہ ہوسکے اور اپنی جان ،جانِ آفریں کے حوالہ کردی۔جلسہ گاہ میں قاتل سید اکبر کو موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ، یوں اس سازش پر بھی ہمیشہ کیلئے پردہ ڈال دیا گیا ۔زندگی میں آپ کو قائد ملت کے لقب سے نوازا گیا جبکہ16اکتوبر 1951ء کو شہادت کے بعد آپ کو شہید ملت کہا جانے لگا۔آج ہر دلعزیزمحب وطن قائد نوابزادہ لیاقت علی خان کو ہم سے جدا ہوئے67 برس بیت گئے ہر سال پورے ملک میں آپ کی برسی نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جاتی ۔