مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں متاثرین امداد کے منتظر
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران مسئلہ کمشیر اصولی مؤقف اور جرأت مندانہ انداز میں پیش کرنے پر آزاد کشمیر کی سیاسی، دینی جماعتوں، حریت کانفرنس، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر شاخ کی جانب سے جہاں انہیں خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے وہاں مسئلہ کشمیر کی گونج دنیا میں بھی سنائی دی تھی اور تنازع کشمیر کے حوالے سے بل کھاتی پالیسی کا ابہام بھی دور ہو گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی امریکہ سے واپسی پر اسلام آباد ائر پورٹ پر وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید، قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر خان، آزاد کشمیر کابینہ کے ارکان، حریت کانفرنس اور سیاسی جماعتوں کے قائدین و ان کے نمائندوں کی جانب سے شاندار استقبال پر جہاں کشمیری قیادت نے پاکستان اور اس کی حکومت کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موجودہ خارجہ پالیسی پر اطمینان کا اظہار کر دیا ہے وہاں حکومت پاکستان کی کشمیر ایشو کے حوالہ سے سیاسی اور اخلاقی قوت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نرنیدر مودی نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو دو ممالک کے مابین علاقائی تنازعہ کا رنگ دینے کی جو کوشش کی تھی اس میں بھی انہیں ناکامی ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ میں کھڑے ہو کر حقائق کے منافی مؤقف پیش کرنا بھارت کی ہی بے شرمی ہو سکتی ہے۔ بھارت نے خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لیکر گیا تھا اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت کا موقع دینے کے وعدے کئے تھے، مسئلہ کشمیر دو ممالک کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے اور نہ ہی کشمیری قوم اور ان کے وسائل مالی غنیمت ہیں، مسئلہ کشمیر عالیم ایجنڈے پر موجود ہے کشمیری اپنی منشا اور غربت کے منافی کوئی عالمی یا علاقائی فیصلہ قبول کرنے کے پابند بھی نہیں ہیں۔ دوسری جانب ورکنگ بائونڈری اور سیز فائر لائن پر بھارتی افواج کی جانب سے بلاجواز اور بلا اشتعال فائرنگ و گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے سیز فائر لائن پر واقع کئی علاقوں میں فائرنگ و گولہ باری کی وجہ سے نماز عید بھی ادا نہیں کر سکے ہیں۔ 13 افراد شہید ہو چکے ہیں، بہادر افواج پاکستان دشمن کے مورچورں پر مؤثر جوابی کارروائی کر رہی ہے اس لئے عوام کا واضح پیغام ہے کہ وہ دفاع وطن کے لئے اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، عوام نے عالمی برادری کی توجہ دلائی ہے کہ وہ بھارت کی فوج کی جانب سے سول آبادی کو نشانہ بنانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔
بھارتی وزیراعظم، بھارتی وزیر دفاع نے اپنی فوج کو سیز فائر لائن، ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری و فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلانیہ گرین سگنل دیکر دنیا کو پیغام دے دیا ہے نہ بھارت خطہ کے امن کو تباہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور بدمست ہاتھی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے، بدمست ہاتھی قابو کیسے کئے جاتے ہیں یہ تو بھارت سرکار جانتی ہے؟ متعدد کشمیری قائدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری دو بڑی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے مؤقف بھارت سرکار کو ہضم نہیں ہو رہا ہے، ادھر مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں افراد سیلاب میں پھنے اور امداد کے منتظر ہیں۔ بھارتی حکومت امداد و بحالی کا کام تسلی بخش طور پر نہیں کر سکتی ہے جو ساری دنیا جانتی ہے۔ آزاد کشمیر سے امدادی سامان کے قافلوں کو مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ گزشتہ روز مختلف سیاسی، دینی جماعتوں سمیت دیگر طبقات کے لوگوں نے سیئز فائر لائن کے سامنے دھرنا بھی دیا اور اپنے مطالبہ کو دہرایا کہ متاثرین سیلاب مقبوضہ کشمیر کی امداد کے لئے آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام کو سنائی دی جائے۔ متحدہ جہاد کونسل کے سیکرٹری جنرل و امیر تحریک المجاہدین شیخ جمیل الرحمن کا کہنا ہے کہ یو این او میں مقبوضہ کشمیر کی سیلابی صورتحال اور اس کے اثرات پر بات کی جانی چاہئے تھی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر کو شامل کریں، جب تک مجاہدین کشمیر کی بندوق مؤثر انداز میں چلتی تھی بھارت گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہوا تھا۔ مجاہدین ہی بھارت سرکار دیوار کے ساتھ لگا سکتے ہیں، پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری چوہدری لطیف بلکہ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ہر لمحہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی کا مؤقف ہے کہ پہلے مسئلہ کشمیر کا حل پھر بھارت سے مختلف شعبوں کے تعلقات ہمارے ترجیحات ہونے چاہئیں۔ شہدا کے خون کے مشن پر پہرہ دیں گے۔ جموں و کشمیر لبریشن لیگ کے صدر جسٹس (ر) ملک عبدالمجید یو این او کے سیکرٹری جنرل کو تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لئے رضا مندی حاصل کرنے کے بجائے یو این او کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کردار ادا کریں۔ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری 26 اکتوبر کو لندن میں ملین مارچ کا انعقاد کر کے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کریں گے۔ یقیناً یہ بڑی سیاسی سرگرمی ہو گی۔ صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان بھی متحرک ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان آبی جارحیت پر خاموش نہیں رہ سکتا، قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے عالمی برادری بھارتی پالیسوں کا نوٹس لے۔ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر جسٹس (ر) سردار محمد نواز خان، جنرل سیکرٹری زاہد اکرم خان جہاں کڑے احتساب کی بات کرتے ہیں وہاں پاکستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات ایک ہی روز میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرانے پر زور دے رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر خان صدر پاکستان مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے خلاف تمام سازشیں ناکام ہو گئیں ہم سب ملک کر بانی پاکستان کے پاکستان میں مزید بہتری لائیں گے، آئینی اصلاحات کریں گے نیا پاکستان ہماری امنگوں کا ترجمان نہیں ہو سکتا ہے۔ ماہ اکتوبر میں آزاد کشمیر کی فضا سوگوار ہو جاتی ہے۔ 2005ء اکتوبر کے قیامت خیز زلزلہ میں 48 ہزار افراد شہید ہو گئے تھے۔ بستیاں، شہر اُجڑ گئے تھے۔ حکومت پاکستان اور بیرونی دنیا نے امداد و بحالی کے لئے جو کردار ادا کیا اس کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کے عوام، فلاحی، تاجروں کی تنظیموں سمیت سب متاثرین کے ساتھ تھے، بیرونی امداد سے براہ راست درجنوں ادارے تعمیر ہو چکے ہیں۔ تعمیر نو کے منصوبوں کی کٹوتی اور اس مقصد کے لئے مختص کئے گئے 55 ارب روپے کے فنڈز کا مطالبہ زور پکڑتا آ رہا ہے۔ 9ویں برسی کے موقع پر پاکستان سے کوئی بھی اہم شخصیت تشریف نہیں لائی۔ حکومت کی جانب سے دعائیہ تقریب میں چند وزیر، صوابدیدی پوسٹوں پر تعینات اخوان، سکولوں کے بچے شریک تھے جو کہ حکومت اور عوام کے مابین بڑھے فاصلوں کی ناقابل تردید تصویر و حقیقت ہے۔ سول سوسائٹی مظفر آباد، عوامی اتحاد آزاد کشمیر، جماعت اسلامی، سٹی ڈویلپمنٹ فائونڈیشن نے 9ویں برسی کے حوالے سے پُراثر تقریبات کا انعقاد کیا اور حکومت کو اپنی تجاویز پیش کیں۔ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں بین الصوبائی وزراء تعلیم تیسری کانفرنس منعقد ہوئی جب سے آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزاد کشمیر میں شرح خواندگی 74 فیصد ہے۔ مردوں میں 84 اور خواتین میں 65 فیصد ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ دو برسوں کے دوران فنڈز کی قلت کے باعث آزاد کشمیر میں ایک بھی پرائمری و مڈل سکول کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا ہے۔ سابق سپیکر شاہ غلام قادر نے تو تعلیمی پالیسی اور تعلیمی پیکج کو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پالیسی قرار دے رکھا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ دارالحکومت تاریخ کا بدترین دھاندلی، مینڈیٹ کی پامالی اور قومی وسائل لوٹنے کا دور ہے۔ شاہ جی بھی قصہ درد سناتے ہیں۔