کپتان کے ٹائیگرز نے سیاسی کارکن کی اصطلاح بدل ڈالی
اس دفعہ بات ہو جائے اُن کے متعلق جن کی بدولت ہمارے ملک کے سیاستدان ،لیڈر اور حکمران بنتے ہیں جو نظام کی تبدیلی ،غربت کے خاتمے ،آئین و قانون کی حاکمیت والے معاشرے کے نام پر اپنا تن من دھن قربان کرتے ہیںلیکن اب تک منزل کے حصول کے متلاشی ہیں۔ جی ہاں آج پاکستان کے سیاسی کارکنوں کے لیے قلم اُٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ان کو 1970 پھر 1993 اور آخر میں 2014 میں مختلف سیاسی ناموں سے پکارا گیا۔1970 میں پیپلز پارٹی کے لیڈر ذوالفقار بھٹو روٹی ،کپڑا اور مکان کی جدوجہد کے لیے نکلے تو اُن کو جیالا اور جیالی کے نام سے پکارا گیا۔ان جیالوں اور جیالیوں نے بھٹو سے دیوانہ وار محبت کی۔مارشل کے دور شاہی قلعے کی کالی کوٹھری سے لے کر کوڑوں،جیلوں اور مارشل لا ء کی فوجی عدالتوں سے سزائوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے بہتر مستقبل کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے مگر اُن سیاسی کارکنوں کو جو جیالا اور جیالی کے نام سے مشہور ہوئے ،پیپلز پارٹی نے چند ایک علامتی مثالوں کے علاوہ ملک کے تمام جاگیرداروں کو ٹکٹ دے کر اسمبلی میں اُن سیاسی کارکنوں کے نمائندے بنا کر بھیجاجن کے خلاف بھٹو نے نعرہ لگایا تھا۔یہ دور کمپیوٹر،انٹرنٹ اور فیس بک کا نہ تھا۔ذرائع ابلاغ محدود اور زندگی مشین کی رفتار سے نا واقف تھی۔غریب کو غربت کے خاتمے کا خواب اُن کی آنکھوں میں سجا کر میدان عمل میں لایا گیا اور ذوالفقار علی بھٹواس ملک کے اقتدارپر براجمان ہو ئے مگر پاکستان کے غریب اور سیاسی کارکن کی حالت نہ بدلی۔پختہ نظریات کے حامل یہ لوگ اپنی جماعت کی پالیسیوں کی نظر ہوگئے۔آصف علی زرداری نے پہلے مردِاوّل اور بعد میں صدرمملکت پاکستان بن کر اُن کو بھیڑ بکریاں اور عقل و شعور سے عاری اپنا غلام تصور کیا اور لوٹ مار کرپشن کی وہ مثالیں قائم کیں کہ ہیرے موتی کی طرح شفاف اور پیارے لوگ گمنامی میں چلے گئے۔1993 میں اسٹیبلشمنٹ کی بدولت مسلم لیگ کے صدر اور لیڈر نوازشریف بنے تو اُنہوں نے اپنے آپ کو تاجروں کا نمائندہ بنا کر پیش کیا۔خوشحال پاکستان اور صنعت و ترقی کا نعرہ لگایا تو لیگ میں شامل ہونے والوں کو متولا اور متوالی کا خطاب دیا گیا۔ملک ان کارکنوں کے نعرے قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں سے گونج اُٹھا۔ متوالوں اور متوالیوں نے بینظیر حکومت کے خلاف تحریک نجات لاہور کی سڑکوں پر شروع کی اور اپنی قربانیوں کی بدولت نوازشریف اور مسلم لیگ کو زندہ رکھا۔جاوید اشرف شہید اس دوران پولیس کی گولی سے جام شہادت نوش کر گئے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر ایک نظریاتی کارکن غلام حیدر وائیں کو بٹھایا گیاتو یوں محسوس ہوا کہ تاریخ نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے لیکن افسوس اس کے پیچھے سوچ صرف پرویز الہٰی کا راستہ روکنا تھا
نواز شریف نے پہلی دفعہ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعت کو اپنے نام سے رجسٹر ڈ کرواکر جمہوری بادشاہت کا آغاز کیا جس کا نقطہ عروج نواز شریف کے دو درجن قریبی عزیزوں کی کلیدی حکومتی عہدوں پر براجمان ہونے کی صورت میں نمودار ہوا۔ مسلم لیگ کے متوالوں اور متوالیوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اب ذکر ہو جائے تحریکِ انصاف کا جو سنگل سیٹ والی سے 18سال کی طویل جدوجہد کے بعد عمران خان کی قیادت میں ملک کی مقبول سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں کو ٹائیگرز اور ٹائیگریسز یعنی چیتا اور چیتی کا خطاب دیا ہے۔ سب سے کڑا امتحان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حصے میں آیا ہے کیونکہ کپتان کے کارکن پڑھے لکھے اور شعور کی دولت سے مالا مال ہیں ۔ ملک کے سرمایہ داروںکی اولادہو یا جاگیرداروں کے بچے ، مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ نوجوان ہوں یا غریب کا بچہ ڈی چوک میں سب کو گھاس پر بیٹھے اور کنٹینر پر کھڑے عمران خان کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان ٹائیگرز اور ٹائیگریسز نے پاکستانی سیاسی کارکن کی اصطلاحات کو تبدیل کر دیا ہے۔ پہلے سیاسی کارکن کو غریب آدمی تصور کیا جاتا تھا مگر تحریک ِ انصاف کے سیاسی کارکن میں امیر زادے اور پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ مڈل کلاس اور غریب سب شامل ہیں ۔ یہ عمران خان کے کی کرشماتی شخصیت کے سحر کا اثر ہے کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں یہ کارکن بن کر اشرافیہ نظام کی تبدیلی ، کرپشن کے خاتمہ اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے باوجود عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے صنعت کار اور سرمایہ دار اتنے بُرے نہیں ہیں جتنا سیاست دان اُن کو غریب سے ووٹ لینے کے لئے بدنام کرتے ہیں ۔ عمران خان کنٹینرز پر روزانہ پاکستان کے نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، انصاف کے لئے جدوجہد کی بات کرتے ہیں ، عام آدمی کو وی آئی پی بنانے کی بات کرتے ہیں ، نوکر ی میرٹ پر اور حکمرانوں کے ذرائع آمدن اور اداروں کی مظبوطی کی بات کرتے ہیں ۔ جس کا سب سے زیادہ اثر اُن کے دھرنے میں بیٹھے اُن سیاسی کارکنوں پر ہورہا ہے جو کو ٹائیگرز اور ٹائیگریسز کہتے ہیں ۔ کپتان نے کارکنوں کی وہ فوج تیار کی جس کی سیاسی سرشت میں ناانصافی اور حق تلفی پر خاموشی جرم ہے۔ جو عمران خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پچھلے تیس سال سے حکومت میں رہنے والے کے سامنے ڈٹ گئے اور لاٹھیوں گولیوں اور گیس کی شیلنگ اور جیلیں بھی اُن کو ڈی چوک سے ہٹا نہ سکی۔ اس لئے تحریک ِ انصاف کے یہ ٹائیگرز اور ٹائیگریسزاپنے ساتھ بھی ہونے والی ناانصافی کو برداشت نہ کریں گے۔ یہ اگر جاوید ہاشمی کو باغی سے داغی کہنے میں پل بھر نہیں لگاتے تو یہ کنٹینرز پر کپتان کے ساتھ کھڑے ہونے سے لے کر ٹکٹ کے حصول اور پارٹی میں جائز مقام اور حق کے لئے آواز بھی بلند کریں گے اور کپتان کے پڑھائے ہو ئے سبق کو اُن لوگوں پر میرٹ کی صورت میں لاگو کریں گے جو صرف برٹش سٹائل کی انگریزی بو ل کر اور برانڈڈ سوٹ پہن کر لیڈر بننا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ میرے خیال میں ان لوگوں کے لئے ایک ٹینک بنا دیا جائے جس میں بیٹھ کر یہ تھنک کرتے رہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کپتان اپنی پارٹی میں ایسا میکانزم بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ جس سے کارکنوں کو اُ ن کا جائز مقام مل سکے ۔ کیا وہ اُن لوگوں کو آگے لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جنہوں نے پارٹی کی ہر کال پر لبیک کہا اور عوام کی شرکت کو جلسو ں اور دھرنوں میں یقینی بنایا۔ بلا شبہ عمران خا ن کے لیے یہ ایک مشکل ٹاسک ہے پارٹی کے اندر بھی کچھ لوگ اس کو پسند نہیں کریں گے لیکن اگر عمران خان واقعی پاکستان کی سیاست کو بدلنے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو اُن کو اپنے ٹائیگرز اور ٹائیگریسز جن میں سابق ممبران ِ اسمبلی ، ناظمین اور ضلعی و صوبائی عہدیداران بھی شامل ہیں کو آگے لانے کے لئے ایک جامع حکمت ِ عملی اور صحیح معلومات کا نظام واضع کرنا ہوگا۔ میرے خیال میں شاہ محمود قریشی ، سیف اللہ نیازی ، عامر کیانی اور اعجاز چوہدری جیسے لوگوں کی موجودگی میں یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔