یہ شاید 1971ءکی بات ہے کہ مجھے تنویر نقوی صاحب نے خاص طور سے پیغام دے کر بلوایا اور کہا کہ ایک فلم ”پرائی آگ“ کے نام سے آغاز ہوئی ہے۔ یہ ایک سچوایشن ہے جس پر آپ گیت لکھیں گے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پروڈیوسر بلکہ میوزک ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور سے میں نے غائبانہ طور پر آپ کا تعارف کروایا ہے پھر انہوں نے سچوایشن بتائی اور تین دن میں میں نے گیت لکھ لیا۔ یہ اس دور کی فلموں کی ایک روایتی عمومی سچوایشن کا گیت تھا جس میں ہیروئن کسی باغ یا پارک یا جھیل یا دریا یا سمندر کنارے ایک دوسرے کے گرد منڈلاتے اور ”شرعی فاصلہ“ برقرار رکھتے ہوئے رومانوی گیت گاتے ہیں:
یہ گہری جھیل نیلا جل....یہ ہنستا ناچتا ہر پل
گواہ ہے اپنی چاہت کا....زمیں پہ مل گئی جنت
کچھ دنوں کے بعد تنویر صاحب نے بتایا کہ تمہارا گیت ہر حوالے سے ہر ایک نے بے حد پسند کیا ہے دھن بن گئی اور اب کسی روز ریکارڈنگ ہو گی پھر نہ جانے کیا ہوا فلم کا کام رک گیا، کافی دنوں بلکہ ہفتوں کے بعد حسب معمول تنویر صاحب کے ہاں گیا تو وہاں ایک بہت دلکش شخصیت کے مالک ایک صاحب بیٹھے تھے تنویر صاحب نے پہلے انہیں بتایا کہ یہ ہے وہ نوجوان شاعر جس نے آپ کی فلم کیلئے گیت لکھا تھا وہ صاحب بہت گرم جوشی اور شفقت سے اٹھ کے باقاعدہ پُرتکلف انداز میں ملے، اسی دوران تنویر صاحب کی آواز میرے کانوں سے ٹکرا چکی تھی کہ ”قبلہ اے نیں حمید اختر صاحب پرائی اگ وچ کُڈن والے“ تنویر صاحب کی بذلہ سنجی بہت خوب تھی، یہ حمید اختر صاحب سے میرا پہلا رسمی تعارف تھا پھر یہ ہوا کہ کبھی آمنے سامنے ہونے کا موقع ہی نہ ملا، تنویر صاحب بیمار ہو گئے، یہ ان کا مرض الموت تھا دراصل بہت بیمار رہے۔ میں نے حنیف رامے (اس وقت وزیر خزانہ پنجاب سے بات کی) وہ میرے ساتھ چل کر تنویر صاحب کے گھر گئے۔ تنویر صاحب کی حالت دیکھ کر ان کا بھی دل بھر آیا، پھر حکومت پنجاب نے اپنی ذمہ داری اور خرچ پر میوہسپتال (البرٹ و کٹر وارڈ) میں داخل کروا دیا، علاج جاری رہا ہم لوگ ان ہی کی دیکھ بھال میں لگے رہے۔ یکم نومبر1972ءکو تنویر صاحب راہی ملک عدم ہوئے، میرا بھی انڈسٹری سے جو واجبی سا رابطہ، واسطہ تھا ختم ہو گیا۔ اکتوبر 1974ءکو میں بطور ریذیڈنٹ ڈائریکٹر پاکستان نیشنل سینٹر سیالکوٹ تعینات ہوا اور پھر نیشنل سنٹر ہی کا ہو کر رہ گیا۔
متذکرہ بالا واقعہ کے بعد (تقریباً 30,32سال بعد) حمید اختر صاحب سے شیخ زید ہسپتال میں اچانک ملاقات ہو گئی میں اپنی والدہ کے علاج معالجہ کے سلسلہ میں اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر (اب ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر اکبر حسین کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ حمید اختر صاحب داخل ہوئے، انہوں نے دروازے ہی سے سلام اچھال دیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہ میں حاضر ہو سکتا ہوں، یہ لب و لہجہ اور آواز (اب قدرے بھاری تھی) مجھے مانوس سی لگی ڈاکٹر اکبر حسب عادت مسکراتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھ چکے تھے، میں بھی اٹھا۔ دراز قد، دل میں اتر جانے والی شخصیت، حمید اختر میرے بھی سامنے تھے (ملاقات ہوئی گل بات ہوئی) کے مصداق یادیں تازہ ہوئیں۔ پتہ چلا کہ حمید اختر صاحب کو گلے کا کینسر ہے۔ وہ اس کینسر پر ڈاکٹر اکبر سے گفتگو کرتے ہوئے یوں مسکرا رہے تھے گویا ڈاکٹر انہیں کینسر کی خبر نہیں دے رہا ،کوئی بہت عمدہ شعر سنا رہا ہے۔
یہ تجدید ملاقات پھر بعد کی تسلسل اور تواتر کی ملاقاتوں کا پیشہ خیمہ ثابت ہوئی۔ وہ اس عرصہ میں کینسر سے کچھ ریلیف پا چکے تھے مگر یہ موذی مرض جان تو نہیں چھوڑتا مگر حمید اختر جیسے عزم و ارادہ اور حوصلہ و تیقن رکھنے والے شخص کو زیر کرنا اس کیلئے ایسا آسان بھی نہیں تھا۔تقریبات کا سلسلہ بے کنار تھا، حمید اختر صاحب کا سینہ، صحافت، فلم، ادب، شاعری، شخصیات، سیاست، مذہب، معاشرت، ثقافت، موسیقی، مصوری، تعمیرات، ترقی پسند تحریک، عالمی ماضی و حال کے امور غرضیکہ، گویا ایک سمندر تھا جس میں پتہ نہیں کن کن جواہر کا خزینہ تھا۔ کیا یادداشت تھی اور کیا تربیت (Sequence)تھی!!
وہ جو غالب کا شعر ہے نا:
ذکر اس پری وش کا.... اور پھر بیاں اپنا
تو ذکر کسی شے، انسان، جگہ، واقعہ یا حادثہ کا ہو، حمید اختر اسے واقعی پری وش کا بیان اور اپنے حسن گفتار سے اس کی شان بڑھا دیتے تھے۔ ان کی کتاب ”کالی کوٹھڑی“ پڑھیں۔ یہ ان کی ایوب خان کے دور حکومت میں ترقی پسندی اور کمیونزم سے محبت کے جرم میں گرفتاری اور اسیری کے دوران کے حالات و واقعات پر مبنی کتاب ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ پہلے صفحہ کی چند سطور پڑھنے کی جسارت کر لیں پھر تو وہ کتاب کہے گی کہ اب جاتے کہاں ہو....؟ کیا واقعات نگاری ہے؟ کیا ساتھ اسیروں (جن میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی و دیگر بھی تھے) کا قید کے دوران کا احوال بیان کیا گیا ہے، حمید اختر صاحب کی یہ کتاب پڑھ کے ایسے لگتا ہے حمید اختر جیل کاٹنے نہیں بلکہ کوئی میلہ ٹھیلہ دیکھنے گئے تھے۔
ایک تقریب میں ہمارے بہت میٹھے دوست طفیل اختر نے ان کی 85ویں سالگرہ کے موقع پر سیفما کے آڈیٹوریم میں منعقد کی، اس تقریب کے کمپیئر ہونے کا اعزاز بھی میرے حصہ میں آیا۔ وہ تقریب شرکاءکی تعداد اور حمید اختر صاحب کے حوالہ سے ہونے والی گفتگو کے تناظر میں ایک تاریخی اور یاد گار تقریب تھی۔زریں پنا جو اپنے زمانے کی نویکلی کتھک ڈانسر تھی اور بہت سی فلموں میں بھی فن کا مظاہرہ کر چکی ہیں، اس تقریب کی انعقاد کا اور روح رواں تھی۔ طفیل اختر ان کے شریک کار اور ہمیں مدعو بلکہ پابند کرنے والے تھے۔ صباءپرویز، اظہر جاوید، افتخار مجاز، پرویز حمید، آئی اے رحمان اور دیگر کیسے کیسے نابغہ روزگار لوگ حمید اختر صاحب کو مبارکباد دینے آئے تھے۔ زریں پنا کہہ رہی تھی یہ میرے بوائے فرینڈ ہیں اور حمید اختر کا جواب تھا کہ میں فرینڈ بنا ہی اس لیے ہوں کہ اس کے ساتھ لفظ ”بوائے“ لگا ہوا ہے۔پی ٹی وی میں حمید اختر صاحب کو گھیر گھار کے لاتے، بہلا، پھسلا اور ورغلا کر پروگراموں میں شریک کرنے کا سارا کریڈٹ افتخار مجاز کا ہے وگرنہ صورتحال یوں ہے جیسے حمید اختر سے شاید کوئی صاحب اقتدار و اختیار صرف یوں واقف ہوں کہ وہ صباءحمید کے والد ہیں۔ افتخار مجاز نے علمی، تاریخی، تہذیبی، قومی، بین الاقوامی، ادبی، ثقافتی، مذہبی غرضیکہ ہر ہر طرح کے پروگراموں میں حمید اختر صاحب کے علم، تجربے، یادداشت، مطالعہ اور مشاہدہ کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کامیاب کوشش کی۔ پی ٹی وی میں حمید اختر صاحب کے ان گنت پروگراموں میں ایسے بھی تھے جن میں کمپیئر ہونے کا اعزاز پھر مجھے ہی ملا۔ حمید اختر بہت محبت اور قدر کرتے تھے۔ دراصل یہ ان کی جانب سے (میں تو کہوں گا) شفقت اور حوصلہ افزائی ہوئی تھی۔ انہیں ایک دو بار کسی دوسرے پروڈیوسر نے بھی اپنے پروگرام میں مدعو کیا اور حسب روایت یہ بھی نہ پوچھا کہ کب آئے اور کیسے گئے۔ حمید اختر بہت بدمزہ بھی ہوئے اور میرے یا افتخار مجاز کیلئے ہمیشہ دل میں نرم گوشہ رکھا بلکہ ایک بار تو اپنے کالم میں بھی لکھ دیا کہ پی ٹی وی کے بعض مہربان مدعو کرکے ایسا سلوک کرتے ہیں کہ آئندہ پی ٹی وی کے احاطہ یا کسی دیگر تقریب میں قدم رکھنے سے توبہ کرنے کو جی چاہتا ہے مگر اعزاز احمد آذر اور افتخار مجاز کی محبتوں کے سامنے سپر ڈالنی ہی پڑتی ہے۔ حمید اختر ہمہ جہت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں متنوع ذوق جمالیات اور کثیر الجہات خوبیوں سے سرفراز کر رکھاتھا اور کمال کی بات یہ ہے کہ اپنی ان جہات کا علم بھی تھا اور احساس بھی اور ادراک بھی۔ سو زندگی بھر انہوں نے اپنے دل، اپنے ذہن، اپنی زبان اور اپنے قلم کا بھرپور استعمال کیا۔ فلمیں بنائیں، ترقی پسند تحریک اور کمیونسٹ پارٹی کولہو سے سیراب کیا، یادداشتوں کو طاق نسیاں میں نہیں بلکہ ایک قابلِ رشک حد تک رجائیت پسند فنکار اور انسان تھے بلکہ اس حد تک کہ وہ اپنے کینسر کو بھی پرکاہ کی وقعت نہیں دیتے تھے۔ تقریباً 87 برس کی عمر میں وہ حیات مستعار کی ایک بھرپور انگز کھیل کر واپس پویلین کی طرف لوٹ گئے بلکہ اس بیٹسمین کی طرح گئے جو ڈبل سنچری کرکے ناٹ آﺅٹ واپس جاتا ہے تو پورا سٹیڈیم اس کے ڈیسنگ روم میں داخل ہونے تک تالیوں سے گونجتا رہتا ہے۔ حمید اختر صاحب کو پویلین کو لوٹے ایک برس بیت گیا ہے مگر پورا سٹیڈیم ابھی تک تالیوں سے گونج رہا ہے....
oo
۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024