جمعرات‘ یکم جمادی الاول 1445ھ ‘ 16 نومبر 2023ئ

گیس پائپ لائن بچھانے میں تاخیر پر جرمانہ، پاکستانی وفد ایران پہنچ گیا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان اخوت اور عوام کی بھلائی کا معاہدہ تھا۔ مگر اس معاہدے کو نجانےکس دشمن کی ایسی نظر لگی ہے کہ ابھی تک یہ عوام دوست معاہدہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا۔ ایران سے سستی گیس کی فراہمی ہماری معیشت کے لئے سود مند ثابت ہوگی۔ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ مگر امریکہ بہادر اور کچھ دوست ممالک کی خفگی کے خوف سے ہم ہچکچا رہے ہیں۔ اب تو عرب ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات بہتر ہوگئے ہیں تو ہم کیوں امریکہ سے سہمے رہیں۔ ایران میں گیس پائپ لائن کی تنصیب کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ اب صرف ہمارے حصے کی پائپ لائن کی تنصیب باقی ہے جس پر ہوتے ہوتے کام رکا ہوا ہے۔ اب ہمارے نگران حکمران ہی ہمت دکھائیں اور یہ کام مکمل کریں۔ امریکہ کیا ہمیں کھا جائے گا۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے مفادات کا سوچنا چاہیے۔ اس گیس کی فراہمی سے ہماری زبوں حال صنعتی زندگی پھر رواں دواں ہوگی۔ صرف یہی نہیں۔ ایران نے اس گیس پائیپ لائن کے ساتھ گودار اور مکران میں مفت بجلی بھی فراہم کرنے کا کہا ہے۔ یہ اس علاقے کی زندگی سنوار دے گا۔ اب شاید یہ آخری موقع ہے ہم حالات سدھار لیں۔ ورنہ معاہدے کی خلاف ورزی کے جواب میں ہمیں ایران کو ہرجانے میں 18 ارب ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ کیا ہم ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ہم پہلے ہی بال بال قرضے میں جکڑے ہیں یہ رقم کہاں سے دیں گے اس سے بہتر ہے کہ ہم مارچ2024ءتک کام مکمل کرکے ایران سے یومیہ75 کروڑ مکعب فٹ گیس درآمد کرکے معیشت کا پہیہ چلائیں اور ملک میں خوشحالی لائیں۔
٭٭٭٭٭
چلغوزہ4 ہزار روپے اضافہ کے بعد10 ہزار روپے کلو ہوگیا
اول تو کہیں یہ حکم درج نہیں ہے کہ عوام الناس چلغوزہ کھائیں۔ بے شک اس میں لاکھوں فائدے ہوں گے۔ صحت کے لئے بھی یہ اچھا ہے مگر اس کی قیمت دیکھ کر اچھے اچھے نودولتیوں کی صحت بھی خراب ہونے لگتی ہے۔ جی ہاں گزشتہ دنوں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی خشک میوہ جات کے اس شنہشاہ کی قیمت میں جو ہوشربا اضافہ ہوا ہے اس نے پورے ملک کو چونکا دیا ہے۔ یہ دنیا کا نایاب پھل بن چکا ہے قیمت کے لحاظ سے اس نے پستے کو بھی مات دیدی ہے اور کاجو کو بھی۔ بادام، اخروٹ اور دیگر میوہ جات اس کے قیمتی دربار میں ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں۔ کچھ دنوں قبل تک یہ 6 ہزار روپے کلو تک دستیاب تھا۔ اب 4 ہزار روپے اضافے کے بعد اس کی قیمت10 ہزار روپے کلو ہوگئی ہے۔ اب یہ خریدنے کی بجائے صرف دیکھنے کی حد تک ہی اچھا لگتا ہے۔ اوسطاً ایک چلغوزہ25 روپے کا ہوگیا ہے۔ جی ہاں کئی علاقوں میں اسے ”نیزہ“ بھی کہتے ہیں۔ یہی نام اس پر جچتا بھی ہے۔ اس کی قیمت واقعی نیزے کی طرح دل میں اترتی محسوس ہو رہی ہے۔ بلوچستان خیبر پی کے کے علاوہ یہ سب سے زیادہ افغانستان سے ایران سے لایا جاتاہے۔ اب تو بس اس کا دکانوں پر دیدار کرکے لوگ دل خوش کرتے ہیں کہ ہم نے بھی ”نیزہ“ دیکھا ہے۔ کیونکہ خریدنے کی استطاعت صرف حق حلال سے زیادہ اوپر کی کمائی والوں کو ہی ہوتی ہے جنہیں نذرانے میں تحفے میں بھی ایک آدھ کلو مل ہی جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
سابق ایم این اے علی وزیر بلوچستان داخل ہوتے ہی گرفتار۔
اس وقت جب پہلے ہی بلوچستان میں چمن کے راستے افغانستان واپس جانے والے غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے پر کافی گرما گرمی چل رہی ہے۔ لوگ پریشان ہیں خود بلوچستان اور خیبر پی کے میں آباد پشتون اپنے ان پڑوسی تارکین وطن کو واپس جاتے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ان کا سامان اونے پونے داموں خرید رہے ہیں اس پر کسی کو خوف خدا بھی نہیں آتا۔ بجائے اس کے کہ ان پریشان حال بھائیوں کی مدد کی جائے ان کی جائیدادیں و گھریلو سامان ان سے کوڑیوں کے بھاﺅ خرید کر خدا جانے یہ کونسی مسلمانی دکھا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں غیر قانونی مہاجرین کا غصہ بجا ہے مگر ہمارے یہ شرارتی سیاستدان اپنی مکروہ سیاست چمکانے سے یہاں بھی باز نہیں آتے اور اس سارے لوٹ مار کے عمل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ لوٹ اپنے رہے ہیں۔ ان پر تو ہاتھ ڈال نہیں سکتے الزام ریاست پر لگا رہے ہیں۔ یہ ہوتی ہے منافقت کی سیاست۔ اب گزشتہ دنوں محسن داوڑ شعلوں کو ہوا دینے کوئٹہ آئے تو انہیں ایئرپورٹ سے ہی واپس کر دیاگیا۔ اب علی وزیر آ رہے تھے انہیں بلوچستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ یہ دونوں پشتین تحریک کے رہنما ہیں اس تثلیث کا تیسرا کنارہ تحریک کے روح رواں منظور پشتین بھی جلد ہی بلوچستان آنے کا ڈرامہ رچا سکتے ہیں ورنہ لوگ کہیں گے دیکھا ہم نہ کہتے تھے یہ ریاست سے مل چکا ہے تحریک سے ہٹ رہا ہے۔ یہ تینوں عام بلونگڑے کارکنوں کے ساتھ مل کر ریاست کے خلاف جو منفی پرپیگنڈا کرتے اور بیانات دیتے ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔ کوئی بھی ریاست خواہ افغانستان ہو یا بھارت اپنے حدود میں ایسی منفی سرگرمیاں برداشت نہیں کرتی۔ یہ اگر وہاں ہوتے تو کب کے لٹکا دیئے گئے ہوتے۔ یہ تو ہم ہی رعایت پہ رعایت دے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بھارتی ہیکرز کا کینیڈا اور قطر کی سرکاری ویب سائٹس کو نشانہ بنانے کا دعویٰ۔
اب یہ بھارتی ہیکرز کی جوابی کارروائی ہے ان دونوں ممالک کے خلاف جو بھارت کی بدمعاشی بے نقاب کر چکے ہیں۔ جب سے قطر نے بھارتی نیوی کے سابق اہلکاروں کو جو وہاں ملازمت کر رہے تھے۔ اسرائیل اور بھارت کےلئے جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر سزائے موت سنائی ہے۔ بھارت کو مرچیں لگی ہوئی ہیں۔ پہلے تو حسب معمول بھارت نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جب وہ پکڑے گئے تو چپ سادھ لی تھی۔ پھر جب ثبوت سامنے آئے، سزا ہوئی تو اب بھارت کو یاد آیا کہ یہ تو ہمارے قابل فخر سپوت تھے۔ اب بھارتی حکومت اپیلیں کر رہی ہے کوشش میں ہے کہ سزائے موت رکوا دی جائے۔ ایسا ہی بھارت والے پاکستان میں سزائے موت کے قیدی بھارتی جاسوس کلبھوشن کے حوالے سے بھی کر چکے ہیں۔ پہلے ہم نہیں جانتے کون ہے والی گردان تھی۔ پھر عالمی عدالت تک جا پہنچے۔ اب اسے ویر بہادر قرار دے رہے ہیں۔ اس کی رہائی کیلئے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف کینیڈا والے بھی بھارتی سازشوں سے تنگ آ چکے ہیں کینیڈا اس وقت آزاد خالصتان کا مرکز بن چکا ہے جہاں لاکھوں پنجابی سکھ بسلسلہ روزگار و کاروبار آباد ہیں اور خوشحال ہیں۔ وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی”را“ کے کارندے کئی متحرک سکھ رہنماﺅں کو قتل کر چکے ہیں۔ جس پر ثبوت ملنے کے بعد کینیڈا نے بھارتی سفارتکاروں کو جاسوس قرار دے کر ملک سے نکالا۔ حقیقت میں وہاں بھارتی سفارتخانہ جاسوسی کا اڈہ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں میں شدید تناﺅہے۔ اسی پس منظر میں گزشتہ روز ایک اور متحرک سکھ رہنما کو ان کے کم عمر بیٹے سمیت قتل کر دیا گیا ہے۔ جس نے جلتی پر مزید تیل چھڑک دیا ہے۔ یہ سب کچھ بھارتی سازشوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ مگر لگتا ہے کینیڈا والے بھارت کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ڈر ہے کہیں قطر والوں کے دل میں رحمدلی نہ جاگ اٹھے۔ جبکہ غداروں کو معاف کرنا بذات خود ایک بڑا ناقابل معافی جرم ہے....
٭٭٭٭٭