
سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
کہا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کوئی بھی ڈل مومنٹ ( Dull moment) نہیں ہے ہر وقت ہی ایک ہنگامہ سا برپا رہتا ہے۔لیکن یہ صورتحال منفی ہے یا مثبت اس حوالے سے بھی طویل بحث کی جاسکتی ہے اور کرنی بھی چاہیے لیکن یہ پھر کسی وقت کریں گے۔لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر ہماری سیاست اتنی ہنگامہ خیز کیوں ہے ؟ اس کی وجہ صرف اور صرف آئین سے انحراف ہی ہے اور کچھ نہیں۔جب فریقین کو یہ معلوم ہو کہ آئین سے ماورا بھی اقدامات لیے جاسکتے ہیں تو اسی وقت ہی ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جو کہ آئین کی روح کے منافی بھی ہوتے ہیں اور سیاست میں ہنگامہ خیزی کا باعث اور ملک کے لیے نقصان دہ ہو تے ہیں۔اس صورتحال میں یقینی طور پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔1973ءسے جب سے یہ آئین لاگو ہوا ہے تب سے لے کر اب تک اس آئین میں بے شمار ترامیم تو کر دی گئیں ہیں لیکن جو کام اصل میں ہونا چاہیے تھا اور وہ کام تھا ،آئین کی پا سداری وہ کام نہیں کیا جاسکا ہے۔آئین پر عمل درآمد حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔اور ان کو یہ ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنی چاہیے اور یقینی طور پر اس حوالے سے عدلیہ کا کردار بھی نہا یت ہی اہمیت کا حامل ہے۔لیکن جو بھی صورتحال ہو بات پلٹ کر وہیں پر آجاتی ہے ،کہ قانون کی پاسداری کسی بھی مہذب معاشرے میں لازمی اس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ چل نہیں سکتا ہے اور جہاں پر قانون کی پا سداری نہ ہو وہاں پر امن اور ترقی محض ایک خواب بن کر رہی رہ جاتا ہے۔قانون کی پاسداری کے حوالے سے عدلیہ کا بھی کلیدی کردار ہے جو کہ عدلیہ خود قانون کی پاسداری کے راستے سے ہٹ جائے یا پھر قانون پر عمل نہ کرواسکے جو کہ اس کا منصب ہے تو پھر اس صورت میں عدل نا پید ہو جاتا ہے اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے اور کوئی بھی معاشرہ نشو نما نہیں پا سکتا ہے۔دیر سے ہی سہی لیکن بہت عرصے کے بعد عدلیہ کو ایک جج ملا ہے جو کہ عدلیہ کو درست ٹریک پر ڈال سکتا ہے اور عدلیہ کی روش میں بھی تبدیلی لانے کا باعث بن سکتا ہے اور وہ ہے جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ جو کہ موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ہیں میں یہاں پر ان ہی کی بات کررہا ہوں۔جب عدلیہ درست روش پر چلے گی تو دیگر ادارے خود بخود درست روش پر آجائیں گے۔ہمیں اسی راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح بہتری ممکن ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اگر 75سال میں انصاف کا بول بالا ہو تا اور جسٹس منیر کا ہتھوڑا نہ چلا ہو تا تو یہ ملک کہیں سے کہیں پہنچ سکتا تھا اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں موجود ہو سکتا تھا۔لیکن ہماری بڑی بد قسمتی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا ہے اور ہم ترقی کی دوڑ میں انصاف کی فراہمی کی دوڑ میں بھی بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔اس صورتحال کو یقینی طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی پوری کی پو ری تاریخ ڈی ٹریک ہو گئی اور اسی طرح سے ہم آج یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ہماری اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہو گئی ہے بلکہ بد ترین ہو گئی ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے تاجر برادری بھی اس نظام پر سے اعتماد کھو چکی ہے اور ان کو بھی یہ اعتماد نہیں ہے کہ ان کو انصاف مل سکتا ہے اور ان کی کو ئی داد رسی ہو گی اسی لیے ملک میں دیگر شعبوں کی طرح کاروبار بھی زوال کا شکارہ و چکا ہے اور تا جر بھی اسی طرح کام کررہے ہیں کہ بس کام چلتا رہے وہ بھی اپنی پوری قوت اور اپنی پوری صلاحیتوں کے مطابق وہ کام نہیں کر پا رہے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ اقتصادی شعبہ بھی زوال کا شکار ہے ورنہ اگر اپنے پڑوس میں ہی دیکھ لیں تو پڑوس میں ہی تاجر اپنے ملک کو کہاں سے کہاں لے گئے ہیں کیونکہ ان کو ریاست کی مکمل سپورٹ اور تحفظ حاصل ہے ،اور اسی طرح ان کو انصاف تک مکمل رسائی بھی حاصل ہے اور وہ ترقی کے زینے بہت تیزی کے ساتھ چڑھتے چلے گئے ہیں۔ہمیں بھی اس صورتحال سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔حکومت کا کام ہے کہ ہر طریقے سے تاجروں کو تمام تر سہولیات فراہم کی جا ئیں۔ان کو تحفظ فراہم کیا جائے ،ان کو سہولیات فراہم کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان بھی معاشی شعبے میں آگے بڑھ نہ سکے۔پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ نیت کی ہے اور درست فیصلوں کے فقدان کی ہے۔ملک میں زرعی زمینوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے ،ملک میں اس وقت ایک ہی کا روبار چل رہا ہے اور وہ ہے ہاوسنگ سوسائٹیز کا کاروبار ہے ،ہر طرف ہاوسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں اور زرعی زمینوں کو تلف کیا جا رہا ہے اور یہ کام سرکاری اور غیر سرکاری دونوں شعبوں میں ہو رہا ہے۔اس سلسلے کو روکنا چاہیے اور زمینوں کا ضا ئع ہو نے سے بچانا چاہیے۔ہمیں اپنا سرمایہ ہا ئی ٹیک سیکٹر میں لگانے کی ضرورت ہے ،اگر جو سرمایہ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں لگایا جا رہا ہے وہ پیسہ صنعتی شعبے میں لگایا جائے ،پیدا واری شعبوں میں لگایا جائے آئی ٹی کے شعبے میں لگایا جائے تو ملک تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔حکومت کو بھی اس حوالے سے کام کرنے اور لوگوں کو اس حوالے سے ترغیب دلانے کی ضرورت ہے۔بغیر عد ل کے نہ ہی حکومت قائم رہ سکتی ہے اور نہ ہی قوم بن سکتی ہے۔پاکستانیوں کو قوم بنانے کے لیے عدلیہ کا اہم کردار ہے صوبوں کے حقوق کا تحفظ بھی بھی عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔جو بھی مسئلے مسائل ہیں وہ حل کرنے کا موضوع فورم عدلیہ ہی ہے۔ہمیں بہتری کی جانب جانے کی ضرورت ہے ،جس طرح معاملات چلائے جا رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے اس روش کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے اور عدلیہ ہی اس کے لیے مناسب فورم ہے۔