
دانش… ایم عجائب ملک
ajaibmalik@gmail.com
غز ہ میں اسرا ئیل کے حملوں کے نتیجے میں اب تک12000 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کیلئے کہ حماس اور اسرا ئیل میں یکا یک جنگ کے شعلے کیوں بلند ہو نے لگے اور اس تاریخی قضیّے کی بنیاد کیا ہے؟ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر اعجاز حسین کی تحقیق کے مطابق، اسرائیل اور فلسطینی اسٹیٹ 1948ءمیں یو این او کی ایک قرار دار کے نتیجے میں ا±س سر زمین پر معر وض وجود میں آئی تھی جسے بر طانیہ کی کا لو نی گر دانا جا تا تھا۔ یقینابر طانیہ کا بیسوی صدی کا یہ ایک نام نہادمینڈیٹ تھا …اس سے پہلے اس زمین پر رومن ، عرب اور سلطنت عثمانیہ کے حکمران حکو مت کر رہے تھے۔ یور پی کا لو نیز اور خاص طور پر بر طانیہ کی خصوصی'' نظر کرم'' کے تحت فلسطینیوں کی زمین کو ا±ن یہو د یوں کو جو مغر بی ملکوں میں رہا ئش پذیر تھی کودے دی گئیں اس سلسلے میں برطانیہ کے 1917ءکے بلفور ڈیکلریشن نے بنیا دی اور' شرارت آمیز' کام کیا جس نے دنیا بھر سے چن چن کر یہودیوں کو فلسطین کی سر زمین پر بسا یا۔ بر ٹش فارن سیکر یٹری کے بلفور ڈ یکلریشن کے الفاظ کے مطاب'' ہیز مجیسٹز' گور نمنٹ کی خواہش کے مطابق فلسطین میں ایک' جویش ہو م لینڈ 'کے قیام کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس مقصد کو حاصل کر نے کیلئے ہر ممکنہ کوششیں بروئے کار لا ئی جا ئیں گی اور اس بات کو بھی مد نظر رکھا جا ئے گا کہ فلسطین میں وہ لوگ جو غیر یہودی یعنی مسلما ن ہیں ا±ن کے سول اور مذہبی حقو ق کی بھی حفاظت کی جا ئے گی اور جہاں تک یہو دی کیمونٹیز کا تعلق ہے چا ہے وہ دنیا میں کہیں بھی رہے رہے ہیں ا±ن کے بنیا دی اور سیا سی حقو ق کا خیال رکھا جائے گا۔' اور مجھے خوشی' ہو گی کہ بلفور ڈ یکلریشن کو صہیو نی فیڈریشن کے علم میں بھی لا یا جا ئے ''۔اصل میں پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ یورپیین جیوز کی خشنودی حاصل کر نا چاہتا تھااور اسی لین دین اور سودے بازی کی بنیاد پر یہو دیوں کو فلسطین کی سر زمین کو ایک' ہو م لینڈ 'بنانے اور اس سرزمین پر بسانے کا پلا ن بنا یا گیا۔ دوسری طرف پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ میڈل ایسٹ پر اپنا کنٹرول بر قرار نہ رکھ سکی اور برٹش امپائر نے میڈ ل ایسٹ کی زمین پر اپنا غاضبانہ قبضہ قائم کر کے ان علاقوں میں اپنی کا لو نیز بنا لیں اس سے بر طانیہ پہلے یہ کا م افر یقہ اور ساﺅ تھ ایشیا میں مکمل کر کے بہت سے علاقوں میں قبضہ کر چکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں بر طانیہ کو جیوش کمیونٹی کی دوبارہ ضرورت پڑی اس لئے دیگر یورپی ممالک سے زیا دہ سے زیادہ یہودیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ فلسطین میں آباد ہوں۔ ادھر نا زی ہٹلر کے' ہو لو کاسٹ ' سے ڈر کر لا کھوں یہو دی جر منی اور پو لینڈکو چھوڑ کر ا±س خطے پر جسے نیشنل ہوم قرار دیا گیا تھا اور جو صد یوں سے فلسطینوں کا اپنا وطن تھا ''مان نہ مان میں تیرا مہما ن ''کے مصداق مستقل طور آباد ہو نے کیلئے آ دھمکے۔ فلسطینوں نے نہ صرف اس طر ز عمل پر احتجاج کیا بلکہ ہر طرح سے اس غاصبانہ قبضے کو روکنے کی کو شش کی۔ ادھرصہوینوں کی ارگن (IRGIN) جیسی آر گنا ئز یشن نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جسے ملی ٹینسی اور دہشت گر دی کہا جا سکتا ہے ، بر طانیہ کے خلاف شروع کر دی تاکہ برطانیہ کو بلیک میل کر کے مجبور کیا جا ئے کہ وہ جو یش اسٹیٹ کے قیام میں مدد گار ثابت ہو ۔الغر ض بر طانیہ نے اس ز مین کو تقسیم کر نے کا منصو بہ بنایا۔1948 میں یو این او کی سر پر ستی میں دو قومی اسٹیٹس کے نظریے کے تحت ایک اسرائیلی اور ایک فلسطینی اسٹیٹ بنا دی گئی لیکن فلسطینوں نے اس پر احتجاج کیا کہ وہ صد یوں سے اس سر زمین پر رہ رہے ہیں اور اب ا±نہیں ویسٹر ن پاورز اور انکی سازشوں کے نتیجے میںیہاں سے نکلنے کیلئے اس لئے مجبور کیا جا رہا ہے تا کہ ان کی اپنی اسٹیٹ قائم ہو سکے۔
اصل میں ورلڈ وار کے بعد جب سرد جنگ یا کو لڈ وار کا زمانہ آیا تو بد قسمتی سے کسی مسلم ممالک کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اسرائیل کے پشت پناہی کر نے والی بر طانیہ اور امریکہ جیسی طا قتوں کا مقابلہ کر سکیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو ا کہ کا لو نیوں میں تبد یل ہو نے کے بعد مصر، شام، عراق، ا±ردون اور سعودی عرب نے اسرائیل کی نوزائیدہ سلطنت کو تسلیم کر نے سے انکار کر دیا۔ اسرائیل کو مسلسل تسلیم نہ کر نے کی بناءپر اسرائیلی اسٹیٹ کے وجود میں آنے کے بعد عر ب اسٹیٹس۔اسرائیل کے خلاف ملٹری ایکشن اور ایٹک کر نے پر مجبور ہو ئی لیکن مضبوط اور فیصلہ کن فیصلے کے بر عکس کمزور دفاعی طرز عمل کی بنا ء پر وہ اسرائیل کو شکست نہ دے سکیں۔ فلسطین کے مقابلے میں اسرائیل کو جو خود ایک سکیورٹی رسک تھا، مختلف مغر بی فورسز اور خصوصاً امریکہ کی اسرا ئیل کو مدد فراہم کرنے اور پھر صرف اسرائیل ہی کو نہ صرف ایک 'سکیو رٹی اسٹیٹ 'قرار دینے بلکہ اسکے سا تھ سا تھ کیمو نز م کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی، گو یا ایک تیر سے دو شکار کرنے کا کا م لیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈل ایسٹ کی اہم عرب اسٹیٹس جنہوں نے اسرائیلی ناسور کے خلاف 1967ء،1973ء اور دیگر جنگیں لڑی ا±ن کا مقصد نہ صرف اپنے اپنے علا قوں پر قبضہ تھا مثلاً ا±ر دن ، ویسٹ بینک کو اپنے ساتھ ملا نے اور مصر کی غزہ پر نظر تھی اگر اصولی طور پر عر ب اسٹیٹس متحد ہو تی تو اسرائیل کو جغرا فیائی ، سٹیٹیجک اور ڈیمو گرافک سپیس ہر گز نہ ملتی اور وہ اتنے علاقوں پر قبضہ نہیں کر سکتا تھا۔ 1967میں اس نے نہ صرف، ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جو تاریخی طور پر فلسطین کی ملکیت تھیں بلکہ مصر اور شام کے بہت سے علاقوں پربھی قبضہ کر لیا۔ اس جنگ کے اختتام پر اسرائیل نے کم و بیش تین لاکھ فلسطینوں کو گھروں سے بے گھر کر دیا اور جن علاقوں پر قبضہ کیا وہ اسکے موجود ہ سائز سے تقریباً ساڑھے تین گنا بڑے تھے۔ انٹر نیشنل سیا سی حالات اور اتار چڑھاﺅ کو دیکھتے ہوئے کو لڈ وار کے آخری سالوں میں مصر نے یہ عقلمندانہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ امریکہ ہی کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ امن مذکرات کیے جائیں ؟اگر چہ مصر کو ان مذکرات کے نتیجے میں اسکے مقبوضہ علاقے واپس تو مل گئے لیکن مصر کو اسکی بہت بڑی قیمت ادا کر نی پڑی۔ ایک عرب نیشنل ایسٹ کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ مصر نہ یہ شر ط کیوں مانی؟ اور مصر کے صدر انور سادات کو قتل کر دیا گیا۔ کیمپ ڈیوڈایگر یمنٹ کے پیچھے بھی عرب اسٹیٹس کی بجائے اسرائیل ہی کیعسکری اور سفارتی بر تری نظر آتی ہے۔ عر ب ریاستوں میں ہر لحاظ سے اعتماد کی کمی تھی لیکن کئی فلسطینی تنظمیوں بشمولPLOوغیرہ نے آزادی کی یہ جدو جہد کم و بیش دس سال تک جاری رکھی اور یا سر عر فات کے ذریعے PLOنے 1993میں امن کا معاہد ہ کیا جسے 'آسلو اکارڈ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن اس دفعہ اسرائیل کو بھی اسکی قیمت ادا کر نا پڑی جب اسرائیل کے ایک جو شیلے اسرائیلی نے اسرائیلی وز یر اعظم یزہوک رابن کو قتل کر دیا۔ فریقین نے کسی نہ کسی صورت میں کبھی امن کا معا ہد ہ کر نے اور کبھی نہ کر نے اور کبھی تسلیم نہ کر نے پر اس کی قیمت ادا کی ہے۔ PLOنے اسرائیل کے امن معا ہد ے کو تسلیم نہ کر نے کی وجہ سے اس کی قیمت کیسے ادا کی؟ ایک طرف سیا سی اور عسکری شیرازہ بندی کو نقصان پہنچا اور اسرائیل کے ساتھ امن کا خواب چکنا چور ہو گیا اور دوسری طرف فلسطینوں کے آپس کے اتحاد کو از حد نقصان پہنچا۔حماس جیساسیا سی گروپ سامنے آیا اور اس نے 2000 میں عوامی مقبو لیت حاصل کر لی۔ حماس ( پارٹی ) بنیا دی طور پر 1987میں وجود میں آئی جب اسرائیل کے خلاف فلسطین کی یو تھ نے uprisingاور بغاوت کا آغاز کیا اورمسلح جدو جہد کا آغا ز کیا جسے عا م طور پر انتفدا Ist Intiftdaکے نام سے منسوب کیا جا تا ہے۔ سیا سی اور تنظیمی طور پر حماس نے ا±سوقت حالات پر کنٹرو ل حاصل کیا جب غز ہ سے اسرائیلی فو جیں نکل چکی تھی۔ اب مغر بی کنا رے پر فلسطین کا برائے نام کنٹرو ل ہے جس کے سر براہ الفتح کے محمود عباس ہیں۔2000-2005سے Intiftda-II کے تحت حما س ہی اسرائیل کے ساتھ لڑ رہی ہے جس میں کبھی تیزی اور کبھی کمی آجاتی ہے۔ اگر چہ اس با ہمی لڑائی میں ہمیں اسرائیل کا پلہ ہی بھاری نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ امر یکہ اور یور پی یو نین کی ہر لحاظ سے اسکی سپورٹ ہے۔ جیسا کہ پہلے بتا یا گیا ہے ہر قسم کی ٹیکنکل فوجی اور ملٹری ٹیکنا لو جی کے باو جود اسرائیلی حکومت اور سو سائٹی اس بات پر حیران ہے کہ 7اکتو بر کے حماس کے مسلح ملٹینٹس اور عسکری لوگ اسرا ئیلی شہروں اور مضافات میں کیسے داخل ہو ئے اور انہوں نے فو جی سپا ہیوں اور بعض سو یلین کو بھی نشانہ بنا یا۔ بظا ہر سات اکتوبر2023 کوحماس کا اسرائیل پر اچانک حملہ ایسا ایکشن ہے جس پر مختلف قسم کے کیمنٹس اور آراءپا ئی جا تی ہیں لیکن اصل صورت حال جا نچنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس حملے کو اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے اور برٹش کالونیلزم اور خصوصاً1967 کے بعد کی سٹیلمنٹس اور غاصبانہ طرز عمل کے تحت دیکھا جائے۔۔ یو این اوکے تحت فلسطین کی مجوزہ ریاست کا وجود صرف کاغذ پر ہی موجود ہے۔زمینی حقائق کے مطابق مغربی کنارہ فلسطین کا ایک مقبوضہ علاقہ ہے جبکہ . یروشلم اسرائیل کے تحت اورغزہ ایسا علاقہ ہے جسے ایک اوپن جیل قرار دیا جاتا ہے جہاں ہر قسم کی سہولتو ں انفرا سٹرکچر اور ہسپتالوں تک بمباری سے تباہ کر دیا گیاہے ہزاروں سویلین اور بچوں کو قتل کر دیا گیا ہے غزہ کے فلسطینوں کے پاس کوئی شلٹر ہے نہ پانی انسانی جانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ کہاں گیا ابراہمی معاہدہ یا ابراہیم اکارڈ؟ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی واقعی میڈل ایسٹ میں مستقل امن چاہتے ہیں تو فریقین کو مد نظررکھ کر ایسا حل پیش کیا جائے جن میں فلسطینوں کی خواہش کے مطابق ا±ن کے مسئلے کا دیر پا حل موجود ہو۔ کیونکہ اسوقت فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا کوئی عسکری اورفوجی حل نظر نہیں آتا۔ پہلے ہی بہت دیرہو چکی ہے پوری دنیااور انسانیت کو آنکھیں کھو ل کر رکھنی چاہیں۔