نوائے وقت میں نور بصیرت کا ،کالم لکھنے والے میاں عبدالرشید کے بھائی اور دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان نیشنل فوڈز کے سربراہ میاں عبدالمجید کی زندگی نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ سید محفوظ قطب نے میاں مجید کے ساتھ ایک عمر بتائی ہے، انہوں نے میری فرمائش پر میاں عبدالرشید پر قسط و ار لکھنا شروع کیا ہے، پہلا حصہ شائع ہو چکا ہے۔ نئی قسط ملاحظہ فرمایئے۔ مانچسٹر سے تعلیم اور ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد نوجوان میاں مجید نے پاکستان واپسی کے لئے کار سے سفر کا پروگرام بنایا، اس کیلئے برٹش کونسل سے رجوع کیا گیا ،انہوں نے تھامس کک کمپنی سے مشورہ کیا۔ اور واپسی کا پروگرام اس طرح بنایا کہ عراق تک گاڑی سے جائیں پھر بصرہ سے بحری جہاز میں گاڑی سمیت جائیں۔لندن سے انہوں نے چینل کے ذریعے فیری میں پیرس تک سفر کیا۔ پیرس سے ٹرین لیکر سوئٹزرلینڈ گئے جہاں ان کی گاڑی کھڑی تھی۔ سوئٹزرلینڈ سے گھومتے آسٹریا پہنچے ۔ آسٹریا کا جو مشین ساز تھا اس سے ملاقات ہوئی اور یوگو سلاویہ روانہ ہوئے وہاں سے یونان پھر ترکی آئے۔ ترکی سے دمشق پہنچے اور چند روز خوب گھومے۔ پاکستانی سفارت خانہ بھی گئے۔ انہوں نے خوب خاطر تواضع کی۔ عراق جانے میں پرابلم آ گئی۔ ویزہ تو موجود تھا۔مگر امیگریشن والوں نے کہا آپ گاڑی نہیں لے جا سکتے۔البتہ خود جا سکتے ہیں۔میاں عبدالمجید نے واپس ترکی آئے اور یہاں سے ایران داخل ہوئے۔ ایران سے ہوتے ہوئے کوئٹہ روانہ ہوئے۔ پہلی چوکی نوکنڈی کے مقام پر آئی جو بلند و بالا پہاڑیوں کے درمیان ہے۔ کوئٹہ میں عبدالمجید صاحب اور ان کی برٹش بیگم جس ہوٹل ٹھہرے تھے اس کے بارے میں میاں عبدالرشید صاحب کو بھی پتہ نہ تھا لیکن کچھ دیر بعد میاں عبدالرشید ان کو تلاش کرتے ان کو جا ملے ۔
برسوں بعد دونوں بھائی ملے تو ان کا ایک دوسرے سے الگ ہونے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ بے اختیار رو دیئے۔ یہ بڑی خوشی تھی‘ ایک تو وطن واپس آنے کی‘ دوسرے بھائی سے ملنے کی۔چائے آئی اور وہ پیتے رہے اور خیریت کی باتیں کرتے رہے۔ اس گفتگو سے میاں عبدالمجیدکو کچھ اندازہ ہوا کہ بھائی صاحب تو روحانیت کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔
کراچی آئے تو پروگرام یہی تھا کہ نوکری یا ٹیکسٹائل سے متعلق کام کئے جائیں۔ AHS & COجن کا دفتر محمدی ہائوس کی چھٹی منزل پر تھا اور یہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے وہاں خالد حسن سے ملاقات ہوئی جن کا تھوڑا سا بزنس تھا‘ ان سے ملاقات مانچسٹر میں ہوئی تھی اسی توسط سے یہاں پہنچے۔ ان کے آفس میں وقار حسن سے ملاقات ہوئی جو ان کے پارٹنر بھی تھے۔ یہ وقار حسن پاکستان کرکٹ کی پہلی ٹیم کے ممبر بھی تھے بلکہ ٹیسٹ ہیرو تھے۔عبدالمجید صاحب بھی ان کے ساتھ مل گئے۔
اب جہاں بھی جانا ہوتا وقار صاحب کو ساتھ لے جاتے اس طرح انڈسٹری میں تھوڑا سا تعارف شروع ہوا ان کو پتہ تھا کون سی ملیں کہاں ہیں البتہ اس وقت ملیں اتنی زیادہ نہ تھیں۔
پراچہ ٹیکسٹائل ملز، احمد غنی، دوست محمد، اسٹار، رشید، حبیب زیب تن، باوانی، ولیکا معروف ملیں تھیں۔ ان میں ولیکا سب سے بڑی تھی۔ اگرچہ لانڈھی کے صنعتی علاقے کا آغاز تھا۔ مگر وہاں پر چند بڑی ملیں آدم جی، دائود، حسین اور گل احمد وغیرہ تھیں۔اس وقت سڑکیں نایاب تھیں خاص طور پر سائیٹ کے علاقہ میں جانا آسان نہ تھا۔ آج کل جو پل نظر آتے ہیں۔ اس وقت بالکل نہ تھے چند دن بعد جب ٹیکسٹائل مل جانا ہوا وہاں عبدالمجید صاحب کو میاں امجد علی مل گئے۔ جنہوں نے مانچسٹر سے ڈگری لی تھی اور وہ ان سے ایک سال سینئر تھے۔
اس عرصہ میں کچھ اور لوگ امریکہ سے بھی ٹیکسٹائل کی ڈگری لیکر آئے تھے ان میں ایک خلیل الرحمن تھے جو باوانی مل میں کام کر رہے تھے۔ چونکہ وہ سیٹھ امین باوانی کے دوست تھے‘ اس لئے باوانی مل میں ان کے جدید خیالات کی پذیرائی ہوئی چنانچہ یہ پہلی مل تھی جس میں جدید لیبارٹری، لائبریری اور ریسرچ سنٹر قائم ہوا۔
اس دوران میاں صاحب نے دن رات محنت شروع کر دی۔ پانچ چھ ماہ بعد کام خاصا بہتر ہوا۔
جب کراچی آئے تو انہوں نے جو انگلینڈ میں سیکھا تھا اور جو ان کی صلاحیت تھی اور جو ان کے آئیڈیاز تھے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو انہوں نے کس نہج پر لے جانا ہے ہر مل میں لیبارٹری سیٹ کرنی ہے کوالٹی کنٹرول ڈیپارٹمنٹ بنانا ہے‘ مینٹی ننس کا شیڈول بنا کر عمل کرنا ہے کیونکہ اس وقت ان چیزوں کا استعمال عام نہیں تھا۔ جب میاں صاحب مل کر سیٹھوں کو اس چیز کے بارے میں بتلاتے تو اکثر کا جواب ہوتا جیسے چل رہا ہے‘ ٹھیک ہے۔
میاں صاحب جب بھی مل کے سیٹھ کو ملنے جاتے تو دو تین گھنٹے انتظار کرنا پڑا‘ تب جا کر پندرہ بیس منٹ بات کا وقت ملتا۔ باہر سے آئے ہوئے گوروں کو گھنٹوں ملتے۔ میاں صاحب سوچ کے آئے تھے کہ انہوں نے پاکستان ٹیکسٹائل کی حالت بدلنی ہے مگر یہاں صورتحال مختلف تھی۔ میاں صاحب نے ہمت نہ ہاری‘ ان کو یقین تھا آج نہیں تو کل یہ میری بات مانیں گے۔
خالد حسین صاحب نے میاں عبدالمجید کے اس تجزیے سے اتفاق کیا اور ایسوسی ایٹ ٹیکسٹائل کنسلٹنٹ شروع کی گئی جس میں خالد صاحب اور وقار صاحب شامل تھے۔
کاروبار میں بہتری کے ساتھ ہی میاں مجید صاحب نے ایک دفتر فیصل آباد میں اور ایک دفتر ڈھاکہ میں کھولا۔ اس طرح ان کے تین دفتر ہو گئے اور وہ سارے ملک میں کام کرنے کے قابل ہو گئے۔ میاں صاحب نے ہر نئی اور پرانی مل میں جانا شروع کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں کافی ملیں تھیں۔یہ سب کچھ میاں عبدالمجید کے حصول علم کی لگن، فنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا ذوق، جہد مسلسل اور کاروباری ایمانداری کا نتیجہ ہے۔
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38