برداشت کی بات جائے تو حضرت محمدﷺ نے عملی طور پر برداشت کا وہ سبق دیا ہے جس کی مثالیں اپنے تو اپنے غیر بھی دیتے ہیں ۔یہ بھی برداشت کا اعلی مظاہرہ تھا کہ فتح مکہ کے دن آقاؐ نے اپنے سب دشمنوں کو معاف کردیا ۔ برداشت اور رواداری ایسی صفات ہیں جن سے انسان کی شخصیت نکھرتی ہے ۔رواداری،تحمل اور برداشت جب کسی انسان کا خاصہ بن جائے تو یہ صفات اسے دوسروں کی نظر میں معتبر و معزز بنانے کا کام کرتی ہے۔لیکن افسوس ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہا ہے ۔لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ میں آکر دوسروں کی نہ صرف تذلیل کردیتے ہیں بلکہ بسا اوقات عدم برداشت کی کمزوری دوسروں کی جان لینے کی شکل میں سامنے آتی ہے ۔ہماری عدالتوں میں ایسے لاتعداد کیس چل رہے ہیں جن میں صرف چھوٹی سے تو تکار کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا ایسا کھیل کھیلا کہ نسلیں اس عدم برداشت کی وجہ سے تھانوں،کچہر یوں اور عدالتوں میں دھکے کھائے چلی جاتی ہے ۔ہم سب دعوی کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ برداشت و رواداری و درگذر کا سبق دیتاہے۔لیکن عملی طور پر ہم اس کے بلکل الٹ سفر کر رہے ہیں ۔سڑک پہ سفر کرتے ہوئے اگر ہم کسی دوسری گاڑی کو ٹکر ماردیں تو سوچتے ہیں کہ سامنے والا ہماری مجبوری کو سمجھے اور فوراً ہماری خطا کو معاف کردے۔ دوسری طرف اگر کسی دوسرا ہماری موٹر سائیکل یا کار کو ٹکر ماردے تو ہمارے چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں ہم تھانے فون کرتے ہیں اپنے یاروں دوستوں کو موقع پہ بلا کے ملزم کو برا بھلا کہتے ہیں اور اپنے نقصان کا دگنا معاوضہ طلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔یعنی ہم چاہتے ہیں کہ ہماری غلطی کو انسانی کمزوری سمجھ کر درگذر کردیا جائے۔لیکن ہم دوسروں کی غلطی پہ انہیں سبق سکھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔یہ رویہ معاشرے کو عدم برداشت کی طرف لے جارہا ہے اور اسی طرز عمل کی وجہ روزانہ سڑکو ںپر لڑائی اور مار کٹائی کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ ایک لمحے کی غفلت،لاپروائی اور بے احتیاطی سے انسان کا اتنا نقصان ہوجایا کرتاہے کہ ساری عمر اس نقصان کا مداوا نہیں ہوتا ۔بس پچھتاوا رہ جاتا ہے یا اس لمحے کی بھول کو یاد کر کے آہیں رہ جاتی ہیں ۔ہمارا مذہب ہماری تربیت کی ایسی کوشش کرتا ہے کہ نہ صرف ہم رب کی بارگاہ میں کامیاب ہوسکیں بلکہ ہم رب کے بندوں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کر کے معاشرے میں ایسی فضا پیدا کریں کہ ہر کوئی ہنسی خوشی اپنی زندگی کے دن گزارنے کے قابل ہو جائے۔کہتے ہیں سو دلیلیں ایک طرف اور ایک نرم مسکراہٹ ایک طرف ،کسی کے دل میں اگر گھر کرنا ہو تو اس کا سب سے آسان نسخہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے اچھا سلوک کیا جائے ۔آج کے دن یعنی 16نومبر کو دنیا بھر میںعالمی یوم برداشت اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اس کی منظوری جنرل اسمبلی نے 16نومبر1996ء کو دی اور یہ دن پہلی مرتبہ 2005ء میں منایا گیا۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے برداشت کا دن منائے جانے کا فیصلہ ایک اچھی کوشش تو ضرور کہی جاسکتی ہے لیکن عملی طور اقوام متحدہ اپنے رکن ممالک کو برداشت،رواداری اور تحمل کا وہ سبق یاد نہیں کرواسکی ہے جو اسلام کا خاصہ ہے ۔ برداشت اور رواداری کے دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے عقائد اور حقوق کا احترام کرنا سکھایا جائے۔
صاحبو!ہم وطن لوٹنے والے بڑے بڑے لٹیروں اور بادشاہوں کو تو بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں لیکن اپنے بھائی اور ہمسائے کی چھوٹی سی خطا کو ساری عمر یاد رکھتے ہیں ۔آج ہمیں یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت باعث لوگوں میں مسائل کے بھی بڑھتے جارہے ہیں، عدم برداشت سے ہی معاشرے میں تنازعات اور جھگڑے بھی بڑھ رہے ہیں، ذرا ذرا سی بات پر لوگ آپس میں لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں، نوبت خودکشی اور قتل تک بھی جاپہنچتی ہے۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت کی وجہ سے لوگوں میں چڑچڑاپن بڑھتا جارہا ہے، جس سے انسانی جسم اور ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔خاندانی مسائل اور چپقلش کی وجہ سے کہ اگر کوئی شخص گھر سے لڑ جھگڑ کرنکلے گا تو باہر اس کا رویہ خوشگوار رہنا ممکن نہیں رہتا، اسی لئے آج کل اس امر پہ زور دیا جارہا ہے کہ والدین اور اساتذہ بچوں کو شروع سے برداشت اور رواداری کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ برداشت اور رواداری کا دن منایا جانا ایک اچھا عمل تب ہی بنے گا، جب ہم دوسروں کے عقائد اور ان کی رائے کا احترام کرنا شروع کریں گے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024