وزیر اعظم عمران خان آئے روز سرکاری میٹنگز کرتے ہیں۔ ان کی مختصر سی خبریں شائع ہوتی ہیں اور بس مگر وزیر اعظم نے ایک میٹنگ ایف بی آر کے اعلی افسران کے ساتھ کی جسے ٹی وی پر براہ راست نشر بھی کیا گیا۔ میں اس وقت حیران ہوا جب ہمارے دوست ڈاکٹر آصف جاہ نے سادگی سے اپنا مدعا بیان کیا اور وزیر اعظم کے ویژن کی تکمیل میں بڑھ چڑھ کر کردار اد ا کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ جیسے ہی میٹنگ ختم ہوئی تو میںنے ڈاکٹرصاحب سے کہا کہ کچھ مزید تفصیلات بھی بتائیں کہ کیا ہوا اورآگے کیا ہونے کی توقع ہے۔ انہوں بڑی صراحت اور تفصیل سے ساری روداد بیان کی ۔
ٓان کا کہنا تھا کہ ایک شام اچانک پتہ چلا کہ پرائم منسٹر ہائو س ایک میٹنگ کے لئے جانا ہے۔ملک بھر سے کسٹمز اور آر ایس ایس کے تمام آفیسرز ایف بی آرپہنچے ہوئے تھے۔ وقت مقررہ پر ہم سب وزیراعظم سیکرٹیریٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ کراچی سے بیچ میٹ عبدالباسط چوہدری، واصف میمن، فیض چدھڑ بھی موجود تھے لاہور سے میڈم زیبا حئی، ڈاکٹر فرید اقبال اور دوسرے آفیسران تشریف لائے۔ وزیراعظم پاکستان وقت مقررہ پر تشریف لائے اور آتے ہی اللہ کے نام سے تقریر شروع کر دی۔ عمران خان ماشاء اللہ بڑے مدلل انداز مگر دوستانہ ماحول میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی مہینوں سے میری کوشش تھی کہ آپ سے بات کروں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط اور بہتر بنانے کے لیے ہمیں ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ پاکستان دُنیا میں واحد ملک ہے جہاں لوگ خیرات اور چیرٹی میں ہر سال اربوں روپے دیتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہسپتال پاکستانی لوگوں کے عطیات کی وجہ سے بنا ۔ پاکستان کے لوگ مجھے شوکت خانم کے لیے سب سے زیادہ عطیات دیتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کا اربوں روپے کا بجٹ ہے مگر یہ سب لوگوں کی خیرات کی وجہ سے پورا ہوتا ہے کیونکہ شوکت خانم میں 70 فیصد سے زیادہ مریضوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ایسی کوئی دوسری مثال دُنیا میں نہیں کیونکہ کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے۔ دوسرا رُخ دیکھا جائے تو پاکستان میں لوگ ٹیکس بہت کم دیتے ہیں، ٹیکس کم اکٹھا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایف بی آر پر اعتماد نہیں۔ جب بھی کوئی تاجر ملتا ہے تو وہ ایف بی آر اور اس کے افسروں کے رویے کی شکایت کرتا ہے۔ تاجر کہتے ہیں کہ ہم سے فکسڈ ٹیکس لے لیں۔ پاکستان اس وقت معاشی طور پر ایک دوراہے پر ہے۔ معاشی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ لوگوں میں ٹیکس دینے کا شعور پیدا کیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم ایف بی آر میں ریفارمز لانا چاہتے ہیں مگر یہ ریفارمز آپ کے مشورہ سے آئینگی۔ یہ میٹنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ہم سب نے مل کر اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے افسران سے خطاب کرے ہوئے بڑے درد مندانہ انداز میں کہا کہ آئیے ہم سب مل کر ملک کو مضبوط بنائیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ وزیراعظم پاکستان نے افسران سے کہا کہ آپ لوگوں میں اس بات کا شعور پیدا کریں کہ وہ ٹیکس ادائیگی کو قومی فریضہ سمجھیں۔ایف بی آر کا خوف ختم کریں۔ عوام میں اعتماد لائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے قومی خزانے کو ایک امانت سمجھا ہے اور کفایت شعاری سے 45 ارب روپے کم خرچ کیا۔ ہم نے لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہے۔ انہیں یہ بتانا ہے کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس ملکی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا میں نے کفایت شعاری کی مہم اپنی ذات سے شروع کی ۔ میں نے دورہ واشنگٹن پر 65 ہزار ڈالر خرچ کیے جبکہ آصف زرداری نے 12 لاکھ ڈالر، نواز شریف نے 11 لاکھ ڈالر اور شاہد خاقان عباسی نے 8 لاکھ ڈالر اقوام متحدہ کے دوروں پر خرچ کیے۔ انشاء اللہ ملک ترقی کی راہ پہ گامزن ہے۔ ہم سب نے مل کر اس ملک کو آگے لے جانا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس سال کا 5500 ارب کا ریونیو ٹارگٹس پورا کر لیں گے۔ ایف بی آر میں ریفارمز لانے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس ادارے کو ایک فعال، اور مضبوط ادارہ بنایا جائے لیکن ایف بی آر میں ریفارمز تبدیلیاں آپ سب کے مشورے سے ہونگی۔ آپ محنت ،لگن اور ایمانداری سے بلا خوف و خطر اپنا کام کریں۔ انشاء اللہ ہم سب ملک کر اس ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنائیں گے۔
وزیراعظم کے خطاب کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب آپ دو تین سوال کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے بات کرنے کا موقع دیا، اپنے تعارف کے بعد کہا کہ الحمد اللہ ہم آپ کے ویژن کے مطابق کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے دن رات محنت کر رہے ہیں اور معاشی پس ماندگی ،امپورٹ میں کمی کے باوجود ریونیو ٹارگٹس کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں ،ہم سب کسٹمر اور آر ایس ایس کے ساتھی آپ کے ویژن کے مطابق ٹیکس کلچر کو نہ صرف فروغ دے رہے ہیں بلکہ مشکل ریونیو اہداف کے بھی قریب قریب پہنچ رہے ہیں۔ مگر آج کل خبریں سن رہے ہیں کہ ایف بی آر کو ختم کیا جا رہا ہے افسران اور ملازمین کو سرپلس پول میں بھیجا جا رہاہے۔ ان خبروں کی وجہ سے افسران اور اہلِ کاروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔
عمران خان کے ساتھ پچھلے 26سال سے تعلق رہا۔ اللہ تعالیٰ نے شوکت خانم کے لیے کئی دفعہ فنڈز جمع کرنے کی توفیق عطا کی، عمران خان سے کئی دفعہ ملاقاتیں ہوئیں۔ جب سے اسلام آباد آئے،عمران خان سے ملنے کی خواہش تھی ، آج اللہ نے خود ہی موقع فراہم کر دیا۔ میرا سوال ختم ہوا تو وزیر اعظم عمران خان نے وزراء فردوس عاشق اعوان، عبدالحفیظ شیخ ،رزاق دائود، چئیرمین ایف بی آر اور کسٹمز اور آرایس ایس کے گریڈ 21 اور 22 کے افسران کے سامنے کہا کہ آصف !میں آپ کو پچھلے 25 سال سے جانتا ہوں، آپ کی دیانت داری بے مثال ہے۔آپ نے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈز جمع کیے، وہ میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ آپ کی تمام خدمات میرے سامنے ہیں، وزیراعظم نے مزید کہا کہ ایف بی آر میں جو اصلاحات ہونگی وہ آپ سب کے مشورے سے ہونگی۔ اس کے بعد مزید سوال و جواب ہوئے ڈاکٹر سرفراز وڑائچ اور عبدالرشید شیخ نے بھی سوالات کیے۔ وزیراعظم نے تحمل سے سب کی باتیں سنیں اور تسلی بخش جواب دیے۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد شرکاء نے سب کی طرف سے موقف پیش کرنے پر میرا شکریہ ادا کیا اور وزیراعظم کے تحسین کے کلمات پر مبارکباد دی ۔ میںنے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اتنی بڑی محفل میں سب کے سامنے عزت سے نوازا۔ رات گئے تک دوستوں اور اہلِ خانہ کی طرف سے مبارکباد کے فون آتے رہے۔
وزیراعظم ہائوس سے فارغ ہو کر بارہ کہو میں اپنے نئے ہسپتال کا رُخ کیا۔ ڈاکٹر رمشاء خاں مریض دیکھنے میں مصروف تھیں۔ خواجہ ظفر اقبال بھی آگئے، جلیل اختر بھی پہنچ گئے۔ رات گئے تک آنے والے مریضوں کو دیکھا۔واپس میس پہنچے۔ جلیل اختر کے ساتھ ڈنر کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ اپنی عنایتوں سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ فلاح اور خیر کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی توفیق دیتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں۔ جب سے وہ حکومت میں آئے ہیں ،اس کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ وہ ایک ایسی ٹیم کی تیاری میں لگے ہوئے ہیںجو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرے۔ ایمانداری سے اپنے فرائض منصبی ادا کرے۔ یہ میٹنگ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38