ہفتہ‘18 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 16؍ نومبر2019 ء
فیسوں کے خلاف احتجاج کیوں کیا؟ یو ای ٹی کے دو طلبا معطل
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے فیسوں میں سو فیصد اضافہ کر دیا۔ جس پر طلباء کی اکثریت نے احتجاج کیا۔ یوں تو اس فیصلہ کے خلاف کم و بیش سبھی طلباء نے احتجاج کیا مگر حکام کی طبع نازک پر گراں گزرنے والے احتجاج سے اجتناب کیا اور ہتھ ہولا رکھا۔ البتہ دو طلبہ اس نازک حد کا خیال نہ رکھ پائے اور دھر لیے گئے۔ حد احتجاج کی ہو یا کسی ملک کی اس کی خلاف ورزی کو کوئی نہیں برداشت کرتا۔ چنانچہ یونیورسٹی کی انضباطی کمیٹی نے دونوں کو چھ ماہ کے لئے معطل کر دیا۔ ہاسٹل الاٹمنٹ منسوخ کر کے یونیورسٹی سے ہی نکال دیا۔ اصل میں ہم میں سے بہت سے لوگ احتجاج کرنا تو جانتے ہیں لیکن یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کِس مقام پر جاکر اُن کا احتجاج برداشت سے باہر ہو جائے گا۔ یہ مزاج پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ اگر کوئی وسیع القلب ہو تو وہ جواب میں کہہ دے گا کرنے دو جو کرتے ہیں اور کچھ فارسی کے شاعر کے بقول ، شاہوں کے مزاج بڑے نازک ہوتے ہیں کہ وہ بلبل کی نالہ زنی بھی برداشت نہیں کرپاتے۔ لگتا ہے یہ فارسی شاعر بڑے نرم دِل تھے کہ بلبل کو نالہ زنی سے بروقت روک دیا۔ ورنہ، اگر وہ رونا دھونا جاری رکھتی تو کچھ بعید نہیں تھا کہ اگلے لمحے مرغِ نیم بسمل کی طرح تڑپتی نظر آتی اور بے کفن لاشہ طعمہ زاغ و زغن بن جاتا۔ یو ای ٹی کے طلباء کے احتجاج کے معاملے میں اُنہیں فارسی شاعر کی طرح کوئی خیر خواہ نہ ملا ، ورنہ یوں ’’بے آبرو‘‘ ہو کر نہ نکلتے۔ ویسے احتجاج کے اور بھی طریقے ہیں، اگر گھر والے اضافی فیس افورڈ نہیں کر سکتے تو یہ دونو جوان پڑھائی کے اوقات کے بعد جی ٹی روڈ پر ایک بینر فیسوں میں اضافے کے لیے مالی امداد کی اپیل کا لگا کر زمین پر کپڑا بچھا کر بیٹھ جاتے۔ جی ٹی روڈ پر آنے جانے والوں کا ہجوم سیل رواں کی صورت بہہ رہا ہوتا ہے۔ ان میں بڑے بڑے سخی اور اللہ والے بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ خلق خدا اُنہیں مایوس نہ کرتی اور اتنے پیسے جمع ہو جاتے کہ گریجوایشن کے بعد آسانی سے پی ایچ ڈی کے لیے بھی پیسے بچ جاتے‘ کرنے کو تو ہم انضباطی کمیٹی کے ارکان سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں کہ انہیں معاف کر دیں جوان ہیں جوانی میں خون میں گرمی بہت ہوتی ہے۔ میری آپ کی طرح یہ بھی کسی کے بچے ہیں۔ بڑی آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ فیسوں میں اضافے پر کیوں مجبور ہونا پڑا؟ آج کی انضباطی کمیٹیاں بھی وہی کام کرتی ہیں جو کسی زمانے میں ’’ماشٹر جی‘‘ کا ڈنڈا کرتا رہا ہے مگر اب تو سکولوں کے باہر لکھ کر لگا دیا گیا ہے مار نہیں پیار!
٭٭٭٭٭
ٹماٹر کے کھیتوں کی ہتھیاروں سے رکھوالی!
ملک بھر میں ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بدین (سندھ) میں چوروں نے ٹماٹروں کے کھیتوں کا رُخ کر لیا۔ کھیتوں سے ٹماٹروں کی چوری کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے کھیت مالکان نے ہتھیار بند پہریدار مقرر کر دئیے ہیں۔ٹماٹروں کی قیمتوں میں اضافے اور اس پر مقتدر حلقوں کے تبصروں کو، زخم پر مرچیں چھڑکنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے ۔ ویسے تو زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے لیکن مرچیں چھڑکنے کا استعارہ بتا رہا ہے کہ نرخ میں ہری مرچیں بھی ٹماٹر کے قریب پہنچ رہی ہیں۔ اسی طرح چلغوزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پربھی تبصروں کا دلچسپ سلسلہ جاری ہے۔ تبصروں کی صورت میں ایسے مزاحیہ ٹوئٹ کا سلسلہ اس سے شروع ہوا کہ ہمارے ایک ماہر معاشیات نے ڈھائی تین سو روپے کلو بکتے ٹماٹروں کی قیمت فقط سترہ روپے بتائی۔ ایک شہری نے ٹماٹر کو سرخ چلغوزوں سے تشبیہ دی ہے۔ چلغوزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیںکر رہی ہیں ، ایک بوری کی قیمت کا تخمینہ ایک کروڑ لگایا گیاہے۔ جب سے چلغوزوں کی قیمتیں بڑھی ہیں ڈاکوئوں نے اپنے ہدف تبدل کر کے ڈرائی فروٹ بیچنے والوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ کبیر والا میں سبزی منڈی سے ٹماٹر خرید کر گھر جاتے سائیکل سوار سے ڈاکوئوں نے گن پوائنٹ پر دو کلو ٹماٹر چھین لئے۔ نوجوان داد رسی کے لیے تھانے پہنچ گیا۔
بدین کے کھیت مالکان نے اسلحہ بردار پہرے دار رکھ تو لئے ہیں لیکن اُنہیں آگاہ رہنا چاہئے کہ آنے والے بھی بندوق بردار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اُنہیں چاہئے کہ وہ ٹماٹروں کی چوری روکنے کے لیے ڈرون استعمال کریں یا ریڈار لگا رکھیں، اگر حالات مزید بگڑے تو ٹماٹروں پر پولیس مقابلوں کی خبریں بھی آنے لگیں گی۔ مذاق اپنی جگہ لیکن قیمتوں میںاضافے کے باعث کنجڑوں (سبزی فروشوں) اور خشک میوہ جات فروخت کرنیوالوں کی جانیں شدید خطرے میں ہیں۔
٭٭٭٭٭
برطانوی شہزادہ چارلس 71 برس کے ہوگئے‘ سالگرہ کا جشن جاری۔
برطانوی شہزادہ چارلس کو اپنا جنم دن مبارک ہو‘ وہ خیر سے 71 برس کے ہوگئے جبکہ انکی والدہ اپنی عمر کی سنچری مکمل کرنے ہی والی ہیں‘ بس اس منزل سے چند سال اِدھر ہیں اور بہت سنبھل سنبھل کر کھیل رہی ہیں کیونکہ عموماً اس سکور پر کھلاڑی آئوٹ ہوجاتا ہے۔ شہزادے کا خیال آتے ہی ایک ننھا منا سا بچہ یا نوجوان ذہن میں آتا ہے کیونکہ بچپن میں شہزادے شہزادی کی کہانیوں میں شہزادے اسی عمر کے پائے جائے تھے‘ لیکن اب برطانیہ کے شہزادے ہو ںیا عرب ملک کے‘ سب کے سب سترے بہترے نظر آتے ہیں حالانکہ اس عمر میں انکے پاس بادشاہت ہونی چاہیے۔ یہ تو ملکہ برطانیہ کے سوچنے کی بات ہے کہ ان کا بیٹا 71 سال کا ہوچکا ہے‘ وہ اب بھی اسے بچہ سمجھتے ہوئے اسے تخت کے پاس پھٹکنے نہیں دیتیں۔ حالانکہ شہزادہ چارلس اب بچے نہیں رہے‘ انکی عمر دادا‘ نانا والی ہے‘ ملکہ انکی خواہش بھی پوری ہونے دیں۔ مائیں تو بچوں کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دیتی ہیں‘ لیکن کمال ہے کہ انہوں نے اپنے واحد جانشین کے دل و دماغ کو پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ملکہ جی چلنے پھرنے سے معذور ہوچکی ہیں‘ ممکن ہے سننا بھی کم ہوچکا ہو‘ لیکن بادشاہت کا نشہ ایسا ہے جس نے انہیں ابھی تک زندہ بلکہ بقول شخصے جوان رکھا ہوا ہے۔ ویسے شہزادہ چارلس بھی انتہائی فرمانبردار صابر ’’بچے‘‘ نظر آتے ہیں ورنہ اقتدار کے حصول کیلئے تو کسی رشتہ کا پاس نہیں رہتا۔جس کی جھلک ہماری سیاست میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ممکن ہے چارلس دل ہی دل میں کہتے ہوں…ع
’’ماں جی جان یدو‘ ساڈی واری وی آئون دیو‘‘
انہیں اپنے دل کی بات اب زبان پر لے آنی چاہیے ورنہ وہ بادشاہ بننے کی خواہش ہمیشہ اپنے دل میں ہی پالتے رہیں گے ۔