تعلیمی نظام: خرابی کہاں ہے؟

تعلیم کو عام کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا گیا کہ ہمیں کیسی تعلیم اور زندگی کے کس شعبے میں کتنے مردانِ کار درکار ہیں۔ سارا زور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کی تعلیم پر دیا جا رہا ہے لیکن اس طرف کوئی دھیان نہیں کہ فارغ ہونے والوں کے لیے ملازمت کے مواقع ہیں بھی یا نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری توجہ بے روزگار تعلیم یافتگان کی افزائش پر مبذول ہے۔ شعبہ ابلاغیات کو ہی دیکھ لیں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اس کی تدریس شروع ہو جاتی ہے۔ بعض طلباء پی ایچ ڈی تک کر گزرتے ہیں جن کے تحقیقی مقالات کے عنوانات د یکھیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ زندگی سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بلا سوچے سمجھے لکھوائے جاتے ہیں۔ ستر کے عشرے میں راقم کو ایم اے کے آخری سال میں جو تھیسز لکھنے کے لیے دیا گیا ، اُس کا عنوان تھا، ’’اخبارات کی قیمتیں بڑھنے سے اخبارات کی اشاعت پر اثر‘‘ اُس زمانے میں آج جس اخبار کی قیمت 20 یا 22 روپے ہے، اُس کی تب قیمت شائد آٹھ آنے تھی، جو بڑھ کر دس آنے ہو گئی تھی۔ اب میں نے ساٹھ ستر صفحے کا مقالہ تو گھسیٹ ڈالا اور وہ منظور بھی ہو گیا۔ تب مجھے یہ ثابت کرنے کو کہا گیا تھا کہ دو آنے قیمت بڑھنے سے اخبارات کی اشاعت پر بہت بُرا اثر پڑا ہے لیکن ہمارے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ تب جن اخبارات کی اشاعت سینکڑوں میں تھی وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں میں ہو گئی۔ ہزاروں کی اشاعت رکھنے والے اخبارات لاکھ کی حد پار کر گئے۔
ہزاروں طلباء ابلاغیات میں ایم اے (بلکہ اب یہ مضمون سائنس کہلانے لگا ہے اور فارغ التحصیل ایم ایس سی کہلاتے ہیں) کر نے کے بعد بے روزگار ہیں ۔ جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ یوں ہم بے روزگاروں کی کھیپ پیدا کرنے میں شدومد سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ا ور گردانتے ہیں کہ تعلیم عام کر رہے ہیں۔ بے مغز مقالے لکھوائے جا رہے ہیں، مغرب میں یونیورسٹیاں تحقیقات کا منبع ہیں، اُن کے اساتذہ سائنس کی دُنیا میں نئے نئے انکشافات اور نظریات کے انبار لگا رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں تمام یونیورسٹیوں خواہ وہ پرائیویٹ سیکٹر سے ہوں یا سرکاری ، زیادہ سے زیادہ شعبے DISCIPLINES قائم کرنے پر زور ہے۔ اب تو تدریسی ادارے، کمائو پُتر بن گئے ہیں۔ جتنے زیادہ شعبے قائم ہوں گے، طلبہ کی تعداد بڑھے گی اور ساتھ ہی آمدنی بھی۔ مولانا وحید الدین خان نے مسلمانوں (خواہ وہ دُنیا کے کسی ملک کے ہوں) کے مزاج اور ذوق کی ایک ہی فقرے میں خوبصورت تصویر کھینچ دی ہے لکھتے ہیں ہم (مسلمان) جس دروازے پر PUSH لکھا ہوتا ہے اُسے PULL اور جسے کھولنے کے لیے PULL لکھا ہوتا ہے اُسے PUSH کرنے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس حماقت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دروازہ کبھی بھی کھول نہیں پاتے۔ زندگی کے سارے معمولات میں ہمارا عمل ایسا ہی ہے۔ وطن عزیز کو ایک ایسا سربراہ بھی نصیب ہوا ہے جس کے اندر ساری دُنیا کی دانش سمٹ کر آ گئی تھی۔ اُس نے اسمبلیوں کی رُکنیت کے لیے وہ ’’چودہ جماتاں‘‘ پاس کی شرط رکھ دی۔ یار لوگوں نے اس غیر فطری شرط کو پورا کرنے کے لیے امانت، دیانت اور صداقت کی جو مٹی پلید کی، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ یعنی اچھے بھلے لوگوں کو بے ایمانی کی راہ دکھا دی، ایک خاتون کو جو پاکستان کی وزیر خارجہ رہ چکی تھی، انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بی ا ے کرنا پڑا۔ میجر جنرل کے عہدے تک پہنچنے والا عقلی اور اگر شوق مطالعہ رکھتا ہو تو جنرل نالج کے لحاظ سے درجنوں ایم اے اور ایم ایس سی پر فوقیت رکھتا ہے لیکن چونکہ وہ ’’چودہ جماتاں‘‘ پاس نہیں اس لیے وہ اسمبلی میں بیٹھنے اور عوام کی نمائندگی کرنے کا اہل قرار نہیں پاتا اور اُس کے مقابلے میں گھامڑ، کو دن اور گائودی قسم کے لوگ محض اس لیے آسانی سے ان عوامی ایوانوں میں پہنچ جاتے رہے کہ وہ گریجویٹ ہونے کا ’’اعزاز‘‘ رکھتے تھے۔ یا اُنہوں نے کہیں نہ کہیں سے یہ ڈگری ’’شکار‘‘ کر لی تھی۔ اُن کے شعور اور علم کا مت پوچھئے ان میں سے بہتوں نے کتاب کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
ہاں تو ہم ذکر کر رہے تھے ایم اے ، ایم ایس سی میں لکھوائے جانے والے تھیسز کا‘ آپ ہی فرمائیے، اُن سے کتنے مقالے ایسے ہیں جو اشاعت کے لائق ہوں۔ ان سے کسی علمی یا فنی تحقیقات کی توقع رکھنا سراسرعبث ہے۔ پی ایچ ڈی کے ایسے مقالے کم ہی نظر سے گزرے ہیں جو طباعت کے لائق ہوں یا علمی دُنیا میں بار پانے کے اہل۔ یہاں تو ایسے ایسے پی ایچ ڈی سامنے آئے ہیں جنہوں نے دوسروں کی تحقیقات پر ہاتھ صاف کیا اور بیٹھے بٹھائے پی ایچ ڈی بن گئے۔ عرصہ ہوا دو خواتین پنجاب یونیورسٹی کے آئی ای آر (انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ریسرچ) سے ماسٹر کر رہی تھیں۔ جب تھیسز کا وقت آیا تو راقم سے مشورہ چاہا کہ کس موضوع پر لکھا جائے، میں نے کہا اگر تو ’’کام چلائو‘‘ قسم کا مقالہ لکھنا ہے تو کوئی بھی موضوع لے لیں اور اگر آپ کوئی ایسا کام کرنا چاہتی ہیں کہ وہ علمی حلقوں میں پڑھا جائے اور ہمیشہ یاد رکھا جائے یا وہ آگے چل کر کسی مبسوط تصنیف کی بنیاد بن سکے تو ایک عنوان بتاتا ہوں منظوری لے لیں۔ عنوان تھا: 1800 ء سے پہلے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا سرسری جائزہ۔ منظوری ملنے کے بعد خواتین نے میری طرف رجوع کیا۔ رہنمائی چاہی میں نے اُنہیں اُن کتابوں کے نام بتائے جن سے وہ مواد اخذ کر سکتی تھیں۔ مختصراً یہ کہ مقالہ پیش ہوا، اساتذہ کرام نے بے پناہ تعریف کی، کچھ عرصہ بعد ایک تعلیمی رسالے نے اسے قسط وار شائع کیا۔ یہ ایک ایسا مقالہ ہے جس کی بنیاد پر شیخ محمد اکرم کے سلسلہ کوثریات کی طرز کی ایک تحقیقی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ (جاری)