کلام ِ اقبال اور نوائے وقت
اس واقعہ سے حمید نظامی کے بارے میں تصور پاکستان کے خالق حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے دل میں جو خوشگوار تاثر قائم ہوا اسی بنیاد پر حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے 6 اکتوبر 1937ء کو لکھنئو میں ہونیوالے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ’’مسلم سٹوڈنٹس آف پنجاب‘‘ کی نمائندگی کیلئے حمید نظامی اور سید امجد حسین کو اپنی طرف سے نامزد کیا۔ چنانچہ اجلاس کے انعقاد سے چند یوم قبل ان دونوں کو کلاس روم میں بیٹھے بیٹھے ایک چٹ موصول ہوئی وہ چٹ پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری خان غلام رسول خان بارایٹ لاء کی طرف سے بھی انہوں نے دونوں کو فوری طور پر اپنے دفتر واقع ٹمپل روڈ لاہور پر آ کر ملنے کو کہا تھا دونوں دوست چٹ دیکھ کر گھبرا گئے کہ خدا معلوم کیا بات ہو گئی ہے کہ پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری نے انہیں طلب کیا ہے کالج سے چھٹی کے بعد دونوں پہلی فرصت میں خاں غلام رسول خان کے دفتر پہنچے ، خان صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عام طورپر ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو فرمایاکرتے تھے۔ حمید نظامی اور امجد حسین دونوں میں سے کوئی بھی ان سے متعارف نہ تھا۔ دونوں نے چٹ کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا تو خان صاحب ٹھیٹھ پنجابی میں گویا ہوئے۔
’’او‘ منڈیو! تسی کنہاں دے پتر او‘ تہاڈا ماما‘ چاچا کون ایں؟‘‘ دونوں مسکرائے اور یک زبان ہوکر بولے ’’ہم اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں پڑھتے ہیں۔ گھروالوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا سب کچھ ہے۔‘‘ اس پر خان صاحب نے اپنے سامنے پڑی کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’بھئی پنجاب مسلم لیگ دے ڈاکٹر علامہ اقبال ہوراں تہانوں مسلم سٹوڈنٹس آف پنجاب دی نمائندگی لئی مسلم لیگ لکھنؤ سیشن واسطے نامزد کیتا اے۔ یہ سن کر دونوں دوست خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے سرخ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ خان صاحب نے میز کی دراز سے ریل گاڑی کی ٹکٹیں نکالیں اور حمید نظامی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لاہور سے لکھنؤ اور لکھنؤ سے لاہور کیلئے تھرڈ کلاس کے واپسی ٹکٹ ہیں۔
حمید نظامی اور امجد حسین سید کی حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی طرف سے مسلم لیگ کے لکھنؤ سیشن کیلئے بطور مسلم سٹوڈنٹس آف پنجاب کی نمائندگی کیلئے نامزدگی انتہائی اہمیت کی حامی تھی۔ دونوں پروگرام کے تحت لکھنؤ پہنچ گئے۔ لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن کا پہلا اجلاس حضرت قائداعظمؒ کی زیرصدارت منعقد ہوکر ختم ہوا تو دوپہر تین بجے ایک آدمی نے آکر اعلان کیا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان نے حمید نظامی اور سید امجد حسین کو فوری طورپر طلب کیا ہے۔ دونوں بھاگم بھاگ انکے کمرے میں گئے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے تعارف کے فوراً بعد کہا آپ دونوں کو مبارک ہو۔ جناح صاحب کی طرف سے آپ دونوں کو بطور سٹوڈنٹس لیڈر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی کیلئے رکن نامزد کیا گیا ہے۔ آپ دونوں کو سبجیکٹ کمیٹی کی میٹنگ میں آنا ہے۔ واضح رہے کہ سبجیکٹ کمیٹی تیس ارکان سے عبارت تھی۔
حقیقت یہ تھی کہ حکیم الامت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ کیلئے حمید نظامی اور امجد حسین کے دل میں عقیدت و احترام اور پیار‘ محبت کا جو جذبہ موجزن تھا اور اسکے نتیجے میں تصور پاکستان کے خالق اور اسلامیات بند کو خواب غفلت سے بیدار کرنیوالے حکیم الامت علامہ اقبالؒ سمیت مسلمانوں کے رہبر فرزانہ حضرت قائداعظمؒ کے دلوں میں ان دونوں کی بے لوث محبت کے نتیجے میں جو قدر و منزلت پیدا ہو چکی تھی۔ یہ سبھی اپنی پرخلوص جذبات و احساسات کے ثمرات تھے۔ اسی کے نتیجے میں مسلم لیگ لکھنٔو سیشن کے بعد 1937ء کے آخر میں حمید نظامی نے حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی ہدایت پر مسلمان طالب علموں کی تنظیم کے قیام کے لئے مختلف کالجوں کے مسلمان طلباء سے رابطوں کو تیز تر کر دیا۔ اس وقت وہ سال چہارم کے طالب علم اور کالج یونین کے صدر تھے۔تاریخ کی یہ انمٹ حقیقت ہے کہ حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی ہدایات کی روشنی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مقاصد کو مسلم عوام میں گھر گھر پہنچانے کے لئے طالب علموں کی تنظیم کے قیام کے لئے طالب علموں سے رابطوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا۔ بالآخر وہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام پر منتج ہوا اور اس تنظیم نے حکیم الامت علامہ اقبالؒ اور بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کے پیغام کو مسلم عوام تک پہنچانے کیلئے جو تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ اسی کے نتیجے میں حضرت قائداعظمؒ نے اس تنظیم کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ماروئے شمشیر زن قرار دیا تھا۔ نئی تاریخ میں یہ حقیقت ہمیشہ جگمگاتی رہے گی کہ حمید نظامی نے جس نوائے وقت کا نام حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے کلام سے اخذ کیا تھا اور جس کی کامیابی پر بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے دعائیں کی تھیں حمید نظامی نے اسی اخبار کو تصور پاکستان کے خالق اور بانیٔ پاکستان کے نظریات کی ترویج اور تعمیر پاکستان میں سرگرم عمل رکھا اور ان کے خلد آشیانی ہونے بعد بھی معمار ادارہ مجید نظامی کے مرحوم ہونے پر بھی ان کی نور نظر تحریر رمیزہ مجید نظامی نے اسی راہ پر چلنے کو خیر و ایمان بنا رکھا ہے۔ (ختم شد)