حقیقت حال یہ ہے کہ…!
اقوام عالم میں نظام حیات کے تسلسل اور بقا کے لیے مختلف ادوار میں معاہدے انجام پاتے رہے ہیں ۔یہ معاہدے فکر انسانی کے مختلف سطحی رجحانات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ان تحریری و زبانی معاہدات کو مستند تاریخی دستاویزات کا درجہ حاصل ہے اور متعدد مقامات پر انہیں بہ طور حوالہ پیش کیا جاتا رہاہے ۔جب ایسا کوئی حوالہ کسی اعلیٰ ترین سطح پر کسی نزاعی معاملے میں بہ طور ثقہ تاریخی دلیل کے طور پر پیش کیا جائے تو اس کی معنویت پر خصوصی توجہ مرکوزہو جاتی ہے ۔اس موضوع پر ایک ٹی وی چینل نے پروگرام بھی پیش کیااور ’’ سینٹ کیتھرین سے عہد ‘‘ یا جبل سینا کے راہبوں سے بنی کریم ؐ کے میثاق ‘‘ کی تفصیل پیش کی لیکن اس پروگرام کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے گئے اہل علم حضرات کی جانب سے ان کا کوئی واضح جواب نہ مل سکا۔راقم یونیورسٹی امتحانات کی مصروفیت کی وجہ سے بروقت اظہار خیال سے قاصر رہااور اس ضمن میں علمائے تاریخ و اسلام کی رائے کا منظر رہا لیکن مایوسی ہوئی ۔
استشراق کا ایک طالب علم ہونے کے حوالے سے یہ میرا فرض علمی ہے کہ میں سینٹ کیتھرین معاہدے کی حقیقت سامنے لائوں اور ہر سطح پر اس کو عام کروں کہ آسیہ کیس سے اس معاہدے کے مندرجات کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یہ معاہدہ حقیقت میں ہوا ہے ۔عہد فاروقی ؓ میں جب بحرین میں ایک پادری نے شان رسالت مآب ؐ میں گستاخی کی اور کچھ نوجوانوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو اس کی خبر جب حضرت عمرفاروقؓ کو ملی تو انہوں نے اس امر پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ابھی مسلمانوں میں غیرت ایمانی موجود ہے ۔خیر وہ چھ شقیں جو اس معاہدے میں تحریر ہیں درج ذیل ہیں ۔عیسائی راہبوں (پادریوں ) کے ساتھ نرمی کی جائے اوران کا دفاع کیا جائے اور ان کے ساتھ بہترین طریقے سے بحث و مباحثہ کیا جائے۔۔جزیہ ،خراج ، عشراور دیگر مالی جرمانوں سے پادریوں کو مستثنیٰ قرار دیا جائے۔پادریوں کے گرجا گھروں اور گھروں کی حفاظت کی جائے ۔پادریوں کو جنگ میں شرکت پر مجبور نہ کیا جائے ۔۔ پادریوں کے علاوہ دیگر عیسائیوں سے سالانہ بارہ درہم ٹیکس لیا جائے۔اگر ایک عیسائی خاتون مسلمان سے نکاح کرے تو اس کو مکمل مذہبی آزادی دی جائے۔اس معاہدے کا پس منظر یہ ہے کہ جب خلافت عثمانیہ کے فاتح سلطان سلیم نے مصر کو 1517 میں فتح کیا تو وادی سینا کے راہبوں نے اسے یہ معاہدہ پیش کیا ۔اس معاہدے کو میثاق نبویؐ (العھدۃ النبویۃ) کہا جاتا ہے سلطان سلیم نے اس کا عربی اور ترکش نسخہ ترکی منتقل کیا بعد میں جب اس معاہدے پر تحقیق کی گئی تو اس کے من گھڑت ہونے کی علامات ظاہر ہوئیں جن کو حسب ذیل نکات وار بیان کیا جاتاہے ۔اس معاہدے کے نسخوں پر جو تاریخ درج ہے وہ ہجری تاریخ ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ کہ یہ معاہدہ 2 ہجری میں مسجد نبویؐ میں ہواتھا حالاں کہ اسلامی تاریخ سے واقف اصحاب جانتے ہیں کہ ہجری تاریخ کا اجرا خلفاء راشدین دور میں ہواتھا۔محققین کے نزدیک اس معاہدے کی عربی زبان فصاحت و بلاغت اور ترکیب میں عصررسولؐ کی زبان اور دیگر معاہدات و خطوط سے مختلف ہے جو اس کے من گھڑت ہونے کی واضح دلیل ہے ۔اس معاہدے میں مذکورہے کہ اس معاہدے کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تحریر کیا اور اس پر گواہ صحابہ کرام ہیں ۔ ان صحابہ کرام میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت ابودراؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کے اسمائے گرامی شامل ہیں لیکن تاریخ اسلام اور سیرت سے آگاہ ہر فرد جانتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ ہجرت کے ساتویں سال مسلمان ہوئے تھے اس صورت میں وہ گواہ کیسے ہو سکتے ہیں ۔اس معاہدے میں معروف صحابہ کرام کے علاوہ دیگر ایسے صحابہ کرام کے نام لکھے گئے ہیں جن کا سیرت کی کسی کتاب میں کوئی تذکرہ موجود نہیں جیسا کہ معظم بن قریش،عمربن یاسین اور عبدالعظیم بن حسن وغیرہ۔ ۔ تاریخ اور حدیث کی مستند کتب میں اس معاہدے کا کوئی ذکر موجود نہیں اگر واقعی ایسا معاہدہ ہوتا تو تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں نہ صرف اس کا ذکر ملتا بلکہ اس کے مندرجات بھی موجود ہوتے۔گزارش ہے کہ نزاعی معاملات میں بلا تحقیق اسلامی تاریخی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی صحت پر علما سے رائے ضرور لی جائے۔