اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
جمہوری ملک کا پارلیمانی ایوان اس قوم کے منتخب افراد پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ چنیدہ شخصیات اپنے ملک کی سیاسی تہذیب کی شناخت ہوا کرتی ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ کا ایوان زیریں ، قومی اسمبلی ملک بھر سے منتخب کئے گئے اراکین پر مشتمل ہے جو چاروں صوبوں ، قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارالحکومت کی نمائندگی کرتا ہے اور کروڑوں لوگ ووٹ کے ذریعے انہیں ملکی امور اپنے اعتماد سے نوازتے ہیں۔ من حیث القوم ہماری اراکین اسمبلی سے توقعات ہوتی ہیں کہ وہ اعلیٰ اخلاقی روایات کا مظاہرہ کریں اور اپنی نشست وبرخاست میں وہ معیاری انداز اپنائیں جس میں ہمارے تہذیبی ورثے کی جھلک نمایاں ہو ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گذشتہ ہفتہ قومی اسمبلی میں ایک بحث کے دوران اراکین کے مابین گالم گلوچ اور مار پیٹ کے واقعات سے پارلیمانی تشخص کو نقصان پہنچا ہے اور ہمارے سماج میں عدم برادشت کی لہر اب پارلیمانی رویوں میں بھی صاف نظر آنے لگی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ قوم اپنے بادشاہ کا مذہب اختیار کرتی ہے ، قوم کے جن رہنمائوں کو صبروتحمل کا پیکر بن کر داشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے ، اگر وہ ہی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں اور مقدس ایوان کے اندر اپنے سیاسی مخالف کے خلاف گالی کا طومار باندھ کر ہاتھا پائی پر اتر آئیں تو گذشتہ دو عشروں سے بات بات پر مشتعل ہونے والے عوام الناس کے ہجوم کو اخلاقیات کا درس کون دے گا۔ یادش بخیر پاکستان میں براہ راست انتخاب کے ذریعے چنا جانے والا پہلا ایوان 1970ء کی اسمبلی اورحزب اقتدار کی قیادت اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی جنہیں پارلیمانی روایات سے نہ صرف شناسائی کا دعویٰ تھا بلکہ 1973ء کا آئین بنا کر انہوں نے اس نظام کو مزید مضبوط کیا۔ وفاقی وزراء میں عبدالحفیظ پیر زادہ ، ممتاز بھٹو ، غلام مصطفیٰ جتوئی ، خورشید حسن میر، ملک جعفر ، راجہ تری دیورائے اور مولانا کوثر نیازی جیسی قدآور شخصیات شامل تھیں ، یہ وزراء پوری تیاری کے ساتھ ایوان میں آتے ہر سوال کا مثافی جواب دیتے اور حزب اختلاف کے رہنمائوں سے مکمل عزت کے ساتھ مخاطب ہوتے ۔ دوسری طرف حزب اختلاف بھی نابغہ روزگار شخصیات پر مشتمل تھی۔ جن میں ولی خان ، پروفیسر غفور احمد، مولانا غلام غوث ہزاروی اور ایسے دیگر زعماء شامل تھے۔ حزب اختلاف حکومت پر تنقید کرتی ، حکومتی اقدامات پرحملہ آور ہوتی اور کئی اہم امور کی نشاندہی کرتی تو حزب اقتدار بھی انکا ترکی بہ ترکی جواب دیتی مگر ہر دو صورتوں میں شائستگی کادامن کسی کے ہاتھ سے نہ چھوٹتا ۔جب میاں محمود علی قصوری حزب اختلاف میں چلے گئے تو انکے وزیر قانون حفیظ پیرزادہ سے قانونی امور پر ہونے والے بحث و مباحثے قانون پڑھنے والے طلباء کیلئے باقاعدہ نصاب کا کام دے سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام بحث نہ صرف بہت اعلیٰ معیار کی ہوتی تھی بلکہ ان میں پوری عدالتی اور قانونی تاریخ بیان ہوتی تھی۔ کچھ یہی منظر دینی مسائل پر بحث کے دوران پروفیسر غفور ، مولانا شاہ احمد نورانی ، محمود اعظم فاروقی اور مولانا کوثر نیازی کی تقاریر کے دوران ہوتا تھا۔ کسی بھی اختلافی بحث کے دوران لہجوں میں آنے والی تلخی کبھی برہنہ گفتاری اور دشنام طرازی میں نہ بدلتی ، اخلاقیات کا ایک غیر مرئی پردہ ہر تندوتیز بحث کے خاتمے کے وقت حد فاصل کا کام دیتا تھا مگر انتہائی معذرت کے ساتھ معزز ایوانوں میں بحث و تحیص کا معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے ملکی اور قومی مسائل کے بجائے نجی معاملات اورذاتی مصروفیات پر رائے زنی کئی اراکین کا شیوہ بن چکی ہے اور اب اچھی تقریر کا مطلب جارحانہ انداز اور بلاوجہ کی بلند آہنگی کو سمجھ لیا گیا ہے۔ مجھے گذشتہ چار عشروں سے پارلیمانی رپورٹنگ کرتے ہوئے اتنی مایوسی تو مجلس شوریٰ کے اجلاسوں کی کوریج کے دوران بھی نہیں ہوتی تھی حالانکہ وہ مجلس شوریٰ ایک فوجی آمر کے حسن انتظام کا نتیجہ تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو مل بیٹھ کر پارلیمانی ضابطوں اور قوانین کے ساتھ ساتھ نئے آنیوالے پارلیمنٹرین حضرات کیلئے اخلاقی ضوابطہ بھی وضع کرنے ہونگے اور ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ہوگا ۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، بند قبا ذرا دیکھ