سوات کے باسیوں کی سنی گئی
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے اہل سوات کو درپیش گزشتہ کئی سالوں سے جاری اہم مسائل کے خاتمے کیلئے خصوصی ہدایات جاری کردیں ہیں، سیدو میڈیکل کالج اور سیدو ٹیچنگ ہسپتال کو ایمرجنسی بنیادوں پر اپ گریڈ کرنے سمیت علاقے کی دیگر اسپتالوں کی حالت زار دور کرنے کی بھی ہدایت کردی گئی ،ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیر اعلیٰ محمود خان کا کہنا تھا کہ نہ صرف سوات بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویثرن کی لوگوںکو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی اہم ترین ضروریات بن چکی ہیں، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال سوات اور سیدو ٹیچنگ ہسپتال کو عوامی مفاد کی خاطر الگ حیثیت میں برقرار رکھا جائے، ان احکامات کو انہوں نے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں سوات کے بعض میگا پراجیکٹس کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا،تجویز کردہ منصوبوں میں سیدو ٹیچنگ ہسپتال ،سوات ڈسٹرکٹ ہسپتال ، سیدو میڈیکل کالج،کبل ہسپتال، مدین ہسپتال کی اپ گریڈیشن وتعمیر، سوات جیل کے تعمیراتی کام کی تکمیل سمیت مالم جبہ روڈ کی فوری تعمیر شروع کرنے کے منصوبے شامل ہیں،وزیر اعلیٰ نے اجلاس کے دوران سوات میں صحت کے کئی اہم مسائل کی نشاندہی بھی کی اور اس ضمن میں متعلقہ حکام کو ترجیحی بنیادوں پر انہیں حل کرنے کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں، اجلاس میں صوبے کے متعلقہ انتظامی سیکرٹریز ، سوات سے منتخب ایم پی اے اور چیئرمین ڈیڈک فضل حکیم ، وزیر مواصلات و تعمیرات اکبر ایوب ،آئی جی جیل خانہ جات ، چیئرمین سیدو ہسپتال سوات ڈاکٹر اسرار الحق، ایم ایس سیدو ہسپتال، ایم ایس کڈنی ہسپتال ، ایکسئین سی اینڈ ڈبلیو ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر،سیکرٹری منصوبہ بندی پشاور شہاب علی شاہ و دیگر نے بھی شرکت کی،اس موقع پر اجلاس کے شرکاء نے وزیر اعلیٰ کو سوات میں صحت ، تعلیم و مواصلات سے متعلق جاری کئی اہم ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں پیش رفت اور درپیش مسائل کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی جن پر وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ تمام منصوبوں کو بروقت مکمل کیا جائے تاکہ لوگوں کو جلد از جلد یہ سہولیات میسر آ سکیں، سوات کے محکمہ صحت کے حکام نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ سیدو ٹیچنگ ہسپتال کی تعمیر کا کام 85 فیصدمکمل ہو چکا ہے باقی ماندہ 15فیصدکام مکمل کرنے کیلئے فنڈز درکار ہیں تاکہ اس کو جلد از جلد مکمل کیا جائے جس پر وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس باقی ماندہ تعمیر کیلئے جلد سے جلد فنڈز مہیا کئے جائیں،اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے سیدو میڈیکل کالج سوات اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سوات کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے اور اسکی اپ گریڈیشن کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ہدایات دیں،وزیر اعلیٰ نے خبردار کیا کہ صحت کے معاملے میں عوام کو درپیش مسائل کے حل کرنے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور یقین دلایا کہ حکومت ہر ضلع کیلئے ایک مکمل اور جامع ترقیاتی پیکج دینے کو حتمی شکل دے رہی ہے ۔
سید وٹیچنگ اسپتال جو ایم ایم اے دور کا منصوبہ ہے جس کا کام انہوں نے اپنے دور حکومت میں کافی حد تک مکمل کرلیا تھا اور اس وقت کے ایم پی اے محمد امین نے اس میں خصوصی دل چسپی لیتے ہوئے اس کابیشتر کام اپنی نگرانی میں مکمل کیا تھا لیکن ان کی حکومت خاتمے کے بعد اے این پی اور بعد ازاں تحریک انصاف کی پچھلی صوبائی حکومتوں میں اس اہم منصوبے کی تعمیر نہ ہوسکی جس کی وجہ سے نہ صرف سوات بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کی لوگوںکو صحت سہولیات کی مد میں گوناگوں مشکلات کا سامنا رہا ، سوات کے سنٹرل اور سیدوشریف اسپتالوںکو ریاستی دور میں تعمیر کیا گیا تھا جسے اس وقت میں مثالی علاج گاہ کی حیثیت حاصل تھی اس کے علاوہ ضلع بھر میں دیگر بریکوٹ ، کبل ، مٹہ اور مدین میں بھی اس وقت کے اسپتال ہی تادم لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ، سوات کی پاکستان میں ادغام کے بعد اگر چہ ان اسپتالوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈیشن کا کام ہوتا رہا لیکن وہ بڑھتی آبادی کی ضروریات کے حساب سے ناکافی رہیںاور لوگ ان سرکاری اسپتالوں کی موجودگی کے بائوجود پرائیویٹ اسپتالوں سے مہنگے علاج کرنے پر مجبور ہوتے رہے جس میں ڈاکٹر وں کی مہنگی فیسوں کے ساتھ ساتھ علاج کی دیگر مہنگے مسائل کا سامنااب بھی رہتا ہے ۔ موجودہ وقت میں سوات کے لوگوں کی خوش قسمتی کہیں گے کہ اللہ نے ان کی سن لی ہے اور موجودہ صوبائی حکومت جس میں سوات سے منتخب آٹھ ممبران اسمبلی میں سے 6 ممبران اسمبلی کا تعلق حکمران پارٹی سے ہے جو یقینی طورپر سوات کی تعمیر وترقی کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جبکہ دیگر دو ممبران اسمبلی جن میں سے ایک حلقہ پی کے 7 سے منتخب ممبرصوبائی اسمبلی وقار خان کا تعلق اگرچہ اے این پی اور حلقہ پی کے 7 سے سردار خان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے اور یہ دونوں حالیہ ضمنی الیکشن میں منتخب ہوئے ہیں لیکن ان کی سوات سے محبت میں بھی کسی قسم کا شک نہیں اور یہ تمام کے تمام آٹھ ممبران سوات کی تعمیر وترقی میں خصوصی دل چسپی لے رہے ہیں لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دفعہ صوبے کے وزیر اعلیٰ محمود خان کا تعلق بھی سوات سے ہے جسے یہاں کی لوگوں کے مسائل کا اچھی طرح علم ہے اس سے قبل تحریک انصاف کی پچھلی حکومت میں وہ وزیر کھیل وثقافت اور نوجوانوں کے امور کے وزیر بھی رہے یہی وجہ ہے کہ وہ بھی ان آٹھ ممبران کے ساتھ ساتھ سوات کی لوگوںکو درپیش مسائل حل کرنے میں خصوصی دل چسپی لے رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے سوات کی تعمیر وترقی کے منصوبوں کی تکمیل کے حالیہ فیصلوںکو سوات کی عوام بڑی پذیرائی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ 1969 میں ریاست سوات کے پاکستان سے ادغام کے بعد سے جو محرومیاں چلی آرہی تھیں اب ان کا ازالہ ہوگا ۔