سینٹ کے اجلاس میں گذشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کی تقریر پر ہنگامہ ہوگیا۔ فواد چودھری نے میاں نوازشریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور محمود خاں اچکزئی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جس پر اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا اور قائد ایوان شبلی فراز کے منانے پر بھی ایوان میں واپس نہ آئے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے متذکرہ سیاسی قائدین کے بارے میں فواد چودھری کے غیر پارلیمانی الفاظ ایوان کی کارروائی سے حذف کرتے ہوئے انہیں تنبیہ کی کہ انہوں نے پارلیمانی زبان استعمال نہ کی تو انہیں بولنے نہیں دیا جائیگا۔ چیئرمین سینٹ نے وزیر اطلاعات کا مائیک بھی بند کرایا اور یہ ریمارکس بھی دئیے کہ وہ ہاؤس کا ماحول خراب نہ کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ نے اگرچہ اجلاس میں فواد چودھری سے مصافحہ کر کے ماحول کی تلخی ختم کرنے کی کوشش کی اور ان کے ساتھ دوستی کا اعلان بھی کیا تاہم چیئرمین سینٹ نے گذشتہ روز وزیر اطلاعات کے معافی مانگنے تک انکے ہاؤس میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جو ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک افسوسناک اور اچھوتا واقعہ ہے کہ ایوان بالا میں ایک وفاقی وزیر کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی اس کے ذمہ دار حکومتی اور پارٹی عہدے داران نے اپوزیشن والا طرز عمل ہی اختیار کر رکھا ہے چنانچہ بالخصوص وفاقی وزیر اطلاعات کے انداز تخاطب کو منتخب ایوانوں میں محسوس کیا جا رہا ہے اور انکے اپوزیشن لیڈران ا ور ارکان کے ساتھ تلخ لب و لہجے کے باعث قومی اسمبلی اور سینٹ میں متعدد بار اپوزیشن بنچوں کے احتجاج اور واک آؤٹ کی نوبت آچکی ہے۔ گذشتہ روز تو چیئرمین سینٹ بھی فواد چودھری کے لب و لہجے پر زچ ہوئے جنہیں ان کا مائیک بند کر کے انہیں تنبیہہ کرنا پڑی اور پھر ان کا ہاؤس میں د اخلہ بند کرنا پڑا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن کی ایک گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت ہوتی ہے اور جمہوریت کی گاڑی کو سبک خرام رکھنا بطور خاص سرکاری بنچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ماضی میں تو بالعموم حکومت اپوزیشن کے طرز عمل ا ور طرز تخاطب سے شاکی رہتی تھی مگر اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ اب سرکاری بنچوں کے ارکان اپوزیشن سے بھی زیادہ جارحانہ انداز میں سینٹ اور قومی اسمبلی میں تقاریر کرتے ہیں جس سے ماحول خراب ہوتا ہے تو چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کیلئے بھی سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر اسکے ردعمل میں اپوزیشن بنچوں کی جانب سے بھی ایسا جارحانہ طرز عمل اختیار کر لیا گیا تو پھر منتخب ایوانوں کا چلنا عملاً ناممکن ہو جائیگا۔ بے شک حکمران جماعت کو اپنے مخالفین پر پوائنٹ سکورنگ کا حق حاصل ہے مگر معاملہ اس نہج تک نہیں لے جایا جانا چاہئے کہ اس سے جمہوریت کا ہی مردہ خراب ہونے کی نوبت آجائے۔ اگر ایسا ہوا تو حکمران جماعت خود کو اس کی ذمہ داری سے نہیں بچا سکے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024