جمعۃ المبارک ‘ 7؍ ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 16 ؍ نومبر2018ء
بھارتی میڈیا نے میرا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا: شاہد آفریدی
شاہدآفریدی ان خوش قسمت لوگوں میں ہیں جن کو بے شمار چاہنے و الے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے اور سادہ انسان ہیں اور بہت ہی اچھے کھلاڑی بھی۔ کشمیر میں ہر گھر میں ان کی تصویر اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں بھارتی میڈیا خود دکھاتا رہا ہے کہ کشمیر میں ٹنڈولکر، دھونی یا ویرات کی نہیں صرف آفریدی کی تصویر ہر جگہ ملتی ہے۔ اب لندن میں گذشتہ روز انہوں نے ایک تقریب میں جو کچھ کہا اس سے قطع نظر کہ بھارتی میڈیا نے اسے توڑ موڑ کا پیش کیا یا نہیں کم از کم انہیں پاکستان کے چار صوبوں کے حوالے سے بیان دینے سے قبل بطور پاکستانی انہیں ہزار بار سوچنا چاہئے تھا۔ پاکستان ہمارا وطن ہے، گھر ہے، یہاں ہم لڑیں، مریں، جئیں جو چاہے کریں باہر ہمیں ایسا کچھ کہنا زیب نہیں دیتا۔ سچ کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ مگر آفریدی صاحب کے لئے مشورہ یہ ہے کہ پہلے ایک نہیں ہزار بار تولو لیکن پھر بھی نہ بولو۔ کیونکہ سیاست ان کا شعبہ نہیں وہ ساری زور بیانی کھیل تک ہی رکھیں۔ اسی میں بہتری ہے ورنہ وہ تو سنا ہی ہو گا ناں… سر منڈھاتے ہی اولے پڑے۔ سو پھر یہی کچھ ہوتا نظر بھی آئے گا۔ ہم پاکستانی اپنے گھر کے بارے میں یعنی وطن کے حوالے سے بہت جذباتی ہیں کیونکہ یہی ایک تو ہماری پناہ گاہ ہے۔ کشمیری بھی پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں انہیں آزادانہ رائے شماری سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ضرور ملے گا۔ یہی ہم سب پاکستانی چاہتے بھی ہیں مگر انڈیا نہیں مان رہا۔ اس لئے کھلاڑی کو سیاست سے اور سیاست کو کھیل سے دور رکھنا ہی بہتر ہے۔
٭…٭…٭
ہڑپہ اور موہنجوداڑو موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہ ہوئے: ماہرین۔ ماحولیاتی تبدیلیاں کراچی ہائی رسک شہروں میںشامل ۔
یہ بات ہمارے عوام حکومت اور محکمہ ماحولیات والوں کو کون سمجھائے کہ خدارا ابھی بھی وقت ہے ماحولیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لیں۔ اس طرف سے شتر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپانے کی پالیسی چھوڑ دیں۔ ورنہ جلد ہی ہمارے بہت سے شہر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کا نقشہ پیش کر رہے ہوں گے۔ خاکم بدہن اس کی ابتدا بلوچستان میں کوئٹہ اور سندھ میں کراچی سے ہوتی نظر آرہی ہے۔ خان گڑھ کے ہزاروں سال قدیم کھنڈرات بلوچستان میں واقع ہیں کیا وہاں کے حکمران اس سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے کہ یہ ہنستے بستے شہر کس طرح ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کھنڈر بنے۔
شہروں اور دیہات میں آلودگی کے بے شمار ذرائع پیدا ہو چکے ہیں۔ موسم بھی ہم سے روٹھا روٹھا لگتا ہے۔ بے وقت کی برسات اور طویل گرمیاں سامنے ہیں۔ سردیاں سمٹ رہی ہیں۔ قلت آب سر پر ہے۔ رہے سہے پانی کے ذخائر ہم بے دردی سے خرچ کر رہے ہیں۔ فضائی آلودگی انتہا پر ہے۔ہمارے دریا اور نہریں گندے پانی کے نالے بن چکی ہیں۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے، ناراض موسموں کو منانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہم ہیں کہ ان کو مزید غضبناک کرنے کے تمام طریقوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ اگر یہی حالت رہی تو نجانے کتنے شہر آئندہ چند سالوں میں…؎
نگر ویران ہو جائے گا سارا
اسے روکو وہ ہجرت کر رہا ہے
کا منظر پیش کر رہے ہوں گے۔ اب بھی و قت ہے ہم موسم کے اشاروں کو سمجھیں اور اس کو منانے کی کوشش کریں۔ اگر یہ روٹھ گیا تو پھر واپس نہ آئے گا۔
٭…٭…٭
جناح ہوتے تو خالصتان بن جاتا: امر جیت سنگھ
خالصتان انٹر نیشنل افیئرز سنٹر امریکہ کے سربراہ کے منہ سے یہ سچی بات گواہی دے رہی ہے کہ 1947ء میں اگر کرتار سنگھ کے بارہ نہ بجے ہوتے اور وہ عقل استعمال کرتے تو انہیں احساس ہوتا کہ بھارت میں شمولیت کا فیصلہ بالکل غلط تھا۔ آج کی نئی سکھ نسل کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اس وقت سکھوں کو بالکل درست راہ دکھائی تھی۔ اب ان کا یہ کہنا کہ اگر سکھوں کے پاس بھی ایک جناح ہوتا تو کب کا خالصتان بن چکا ہوتا۔ جناح کی عظمت کو والہانہ سلام ہی تو ہے۔ وہ قومیں خوش نصیب ہوتی ہیں جنہیں قائداعظم جیسا رہنما نصیب ہوتا ہے۔ جو انہیں پستیوں سے اٹھا کر اوج ثریا پر لے جاتا ہے۔ واقعی کشمیریوں اور سکھوں کو جناح جیسے قائد کی ضرورت ہے۔ ضیاء الحق کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کچھ عرصہ اور زندہ رہتے تو دنیا کشمیر اور خالصتان کو آزاد ہوتا دیکھ چکی ہوتی۔ مگر افسوس ان کے ساتھ امریکہ نے وفا نہیں کی۔ گولڈن ٹمپل کی بربادی اور اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کا جو حال بھارت میں ہوا اس پر کرتار سنگھ اور اس کے حامیوں کی روحیں شرما رہی ہوں گی۔ اس جنم میں اگر وہ جنم لیں تو وہ بھی آزاد خالصتان اور بھنڈرانوالہ کے پیروکار بن کر خالصتان زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آئیں گے۔ ویسے بھی سکھوں نے 2020ء کو خالصتان کی آزاد ریاست کے ریفرنڈم کا سال قرار دیا ہے جو قریب ہے۔ بہت جلد مشرقی پنجاب یہ بھارت کے لئے دوسرا کشمیر بننے والا ہے۔
٭…٭…٭
فراڈیا جہاز اڑانا سیکھتے ہوئے برطانیہ سے فرانس پہنچ گیا
ہمارے ہاں بھی ایسی وارداتیں عام ہیں۔ آئے روز کہیں لکی کمیٹی، کہیں رقم ڈبل کرنے اور کہیں بھاری منافع کے لالچ میں لٹنے والوں کی رقم لے کر فراڈئیے اسی طرح عام پرواز کے ذریعے بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔ یوں لٹنے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
اب برطانیہ میں طیارہ چلانے کی تربیت حاصل کرنے کے بہانے جس طرح یہ شخص فرانس پہنچا تو اس کے ہمت و حوصلے کی داد دینی چاہئے کہ اس نے ایک جدید مہارت اور سکیورٹی والے ملک کو بھی اپنی چالاکی سے مات دیدی۔ ہمارے ہاں اس طرح کی دلیرانہ واردات البتہ کافی مشکل ہے کیونکہ اگر ہمارا کوئی طیارہ تو دور کی بات ہے کبوتر بھی ذرا سا سرحد کے پار اڑتا ہوا پایا جائے تو مشرقی سرحد پر بھارت والے اسے جاسوس سمجھ کر پکڑ لیں گے یا مار گرائیں گے۔ یوں دونوں صورتوں میں خطرہ جان کا ہے۔ یہی حالت اب خیر سے افغانستان اور ایران کی طرف سے بھی ہے۔ وہ بھی بنا کسی رو و رعایت کے اس طیارے کو چند سیکنڈوں میں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔ اس لئے ہمارے ہاں خواہش کے باوجود کوئی مہم جو یہ حرکت کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ البتہ اربوں روپے لوٹ کر آرام اطمینان سے آسانی کے ساتھ اب بھی کسی عام پرواز سے آسانی کے ساتھ اب بھی بیرون ملک جا سکتا ہے اور تمام رقم بنکوں یا ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کے تعاون سے باہر پہنچ جاتی ہے۔