کہتے ہیں انگریز دور میں ایک سردار صاحب تھانیدار بن گئے۔ اس دور میں تھانیدار بننا بہت بڑی بات تھی کیونکہ تھانیدار کے پاس بے پناہ اختیارات ہوتے تھے۔تھانیدار کا اتنا زیادہ رعب و دبدبہ ہوتا تھا کہ اسے دیکھ کر ہی لوگوں پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی اور لوگ ڈر سے چھپ جاتے تھے۔
سردار صاحب ایک دیہاتی تھانے میں تعینات ہوئے تو انہوں نے علاقے کے تمام بڑے بڑے لوگوں کو بلایا اور انکے سامنے تقریر کی :’’ میرے علاقے دے پگڑ پو شو ! تہانوں پتہ ہوناں چاہیدا کہ تھانیدار کول بہوں اختیارات ہوندے نیں۔تھانیدار علاقے دا بادشاہ ہوندا اے۔
میں اصلی بادشاہ بن کے حکمرانی دا لطف لینا چاہندا ہاں۔کوئی شک نئیں ہونا چائیدا۔ ہن تسان جا سکدے ہو‘‘۔مجھے افسوس اور معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا رویہ سردار صاحب والا ہے۔ یہ اقتدار حاصل ہی اس لئے کرتے ہیں کہ حکمرانی کی بے پناہ طاقت استعمال کر کے مکمل طور پر لطف اندوز ہوں اور واقعی یہ طاقت کے ہر ہر رنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اقتدار میں آکر جمہوریت کی ایسی تیسی پھیر دیتے ہیں اور مغل بادشاہ بن جاتے ہیں۔ عوام کی خدمت کا لفظ شاید انکی ڈکشنری میں موجود ہی نہیں۔ اسی لئے ہمارے ہر حکمران نے کھل کر حکمرانی کی۔ دل کھول کر عوام کے پیسے پر عیاشی کی۔ ملک کو مزید قرضوں میں ڈبویا۔مہنگائی اور بیروزگاری سے عوام کی زندگی اجیرن کر دی اور ہر حکمران نے غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ خطِ غربت سے نیچے دھکیلا۔عوام بچ جائیں تو انکی قسمت لیکن حکمرانوں کی دولت میں بیرون ملک بینکوں میں اور سب سے بڑھ کر بیرون ملک جائیدادوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
کہنے کو تو ہمارے حکمران جمہوریت پسند ہیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ انکا ہر عمل جمہوریت ہی کے لئے ہوتا ہے لیکن اندازِ حکمرانی کسی مطلق العنان شہنشاہ سے کم نہیں ہوتا۔یہ تو رہا ہمارے جمہوری حکمرانوں کا اندازِ حکمرانی لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمرانی کے مواقع سے نوازا ہے وہاں انکے کردار میں کچھ ایسی کمزوریاں بھی رکھ دی ہیں جو ان کے زوال کا باعث بنتی ہیں ورنہ ان لوگوں کی تو کوشش ہوتی ہے کہ وہ تا حیات حکمرانی کریں اور انکے بعد انکی اولادیں حکمران بنیں۔ان لوگوں کی کوششوں کے مطابق تو حکمرانی انکا خاندانی حق ہے اور انکے خاندان سے باہر جانی ہی نہیں چاہیے۔اگر انکو مستقل حکمرانی مل جائے تو شاید یہ لوگ فرعون کو بھی مات دیدیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ انکے زوال کا سبب انکی اپنی کمزوریاں ثابت ہوتی ہیں۔ میاں صاحب تین بار اقتدار کی کرسی پر متمکن ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کی شان کہ اقتدار کا دورانیہ کبھی مکمل نہ کر سکے۔ عوام کی رائے میں میاں صاحب کو جب بھی حکمرانی ملی اپنے پائوں پر خود کلہاڑیاں مارنا شروع کر دیتے اور پھر وہی کچھ ہوتا جو ایسے کاموں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میاں صاحب آرام سے حکمرانی کیوں نہیں کر سکے؟خوامخواہ کیوں ایسی حرکات کیں جو انکے اقتدار کے لئے سدِ راہ بن گئیں؟
جناب آصف علی زرداری صاحب ہمارے سیاسی میدان کے بہت منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ بلاکے ذہین ہیں ۔مستقبل اور اردگرد کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ حکمرانی کے نشے سے اکیلے لطف اندوز نہیں ہوتے بلکہ مخالفین کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اسی لئے انہیں مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔جس انداز میں انہوں نے اقتدار حاصل کیا یہ انکی ذہانت کا شاندار کارنامہ تھا لیکن شہنشاہ مفاہمت کے کردار میں ’’لالچ‘‘ انہیں اور انکی پارٹی کو کم از کم وقتی طور پر لے ڈوبا۔’’لالچ‘‘ کا الزام کہاں تک درست ہے لیکن عوام کی یہی رائے ہے۔ ان سے پہلے والے حکمرانوں کی بھی ذاتی خامیاں ہی انکے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنیں۔
مشرف صاحب کو وردی کی بے پناہ طاقت لے ڈوبی۔ جناب شہید بھٹو صاحب فخرِ ایشیا اور قائدِ عوام بن کر گرے ۔ ضیاء الحق امیر المومنیں بن کر امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔
یحییٰ خان شراب اور بد کردار ی کے نشے میں ڈوبا اور مرحوم ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والا شہید بھٹو لڑ گیا۔عمران خان صاحب اصلی خان آدمی ہیں۔ کرکٹ کھیلتے کھیلتے سیاست کے میدان میں چھلانگ ماردی ۔سخت ضدی اور مہذب الفاظ میں مستقل مزاج شخص ہیں۔ جو کام ایک دفعہ کرنے کا سوچ لیتے ہیں پھر پیچھے نہیں ہٹتے۔چیونٹی کی طرح جتنی دفعہ بھی گریں دوبارہ چڑھنے کی کوشش ترک نہیں کرتے۔ سلطان محمود غزنوی کی طرح بار بار حملے کرتے ہیں جب تک سومنات فتح نہ ہو جائے اور بالآخر انہوں نے سومنات فتح کر ہی لیا۔سومنات فتح کرنے کے بعد معلوم نہیں وہ ’’بت شکن‘‘ ثابت ہوتے ہیں یا پھر ’’بت فروش‘‘۔
اب تک کے حالات سے تو ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب ایک ایماندار اور محبِ وطن حکمران ہیں۔ وہ پاکستان کو ترقی کی عروج پر لے جانا چاہتے ہیں جس کے لئے یقیناً وہ دن رات محنت کررہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ بہت سے سابق حکمرانوں سے بہتر ثابت ہوں گے مگر ان میں بھی ایک ایسی کمزوری نظر آرہی ہے جو انکے لئے تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسے نظر آتا ہے کہ خان صاحب کو اپنی زبان پر قابو نہیں۔ایسے ایسے دعوے کر دیتے ہیں جن کا پورا ہونا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔مثلاً سمجھ نہیں آتی کہ خانصاحب نے ایسا دعویٰ کیوں کیا کہ وہ خود کشی کر لیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔سعودی عرب سے ادھار لینا بھیک مانگنے کے مترادف ہے۔
خدا کی قدرت کہ خان صاحب کو اقتدار میں آتے ہی یہ دونوں کام کرنے پڑے۔ آئی ایم ایف سے ادھار بھی مانگا گیا اور سعودی عرب سے قرض بھی لیا گیا۔سیاستدان کبھی ایسے دعوے نہیں کرتے جن پر عمل کرنا نا ممکن ہو۔ اقتدار میں آتے ہی خانصاحب نے قرض معاف کرانے والوں سے قرض کی رقم واپس لینے کا دعویٰ کیا۔چیف جسٹس صاحب نے بھی انکاساتھ دیا۔کچھ دن خوب شور مچا اور پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔معلوم نہیں کیوں؟اگر کسی کو معلوم ہو تو قوم کو بھی آگاہ کریں۔
اب عالم یہ ہے کہ کئی قرض معاف کرانے والی اہم شخصیات خانصاحب کی کابینہ کی معزز ارکان ہیں۔ ایک خاتون وزیر نے ماضی میں 84کروڑ کا قرض معاف کرایا۔اب دھڑلے سے وزارت بھی کررہی ہیں۔ کسی نے پوچھا تک بھی نہیں۔
اسی طرح جناب میاں صاحب پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے رائے ونڈ روڈ غیر قانونی طور پر بنوائی تھی۔ اس پر بھی کچھ عرصہ شور مچا اور پھر خاموشی چھا گئی۔یہی معاملہ پاکستان کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کا ہے۔ شور اور دعوے اپنی جگہ مگر اسکا نتیجہ بھی وہی نکلا ہے جو جناب میاں شہباز شریف کے دعوئوں کا نکلا تھا۔ چھوٹے میاں صاحب نے کچھ لوگوں کا پیٹ پھاڑ کر اور انہیں لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹ کر پاکستان کا سرمایہ واپس لانے کا اس حد تک دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ عوام سے کئے گئے وعدے کا پاس نہ کر سکے تو بے شک اسکا نام تبدیل کر دیا جائے۔ خان صاحب تو اپنے خلوص کی وجہ سے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ انکی نیت بھی شاید ٹھیک ہی ہوتی ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ خانصاحب کے وزراء اور مشیر صاحبان بھی خان صاحب کی تقلید میں بے مقصد الزامات اور بلند بانگ دعوئوں سے باز نہیں آتے۔
کچھ وزراء صاحبان تو ہر وقت اپوزیشن پر برستے رہتے ہیں۔ انہیں چور اور ڈاکو کے القابات سے نوازتے ہیں لیکن چور اور ڈاکو آج تک کسی کو ثابت نہیں کر سکے۔ اگر وزیر صاحب کے پاس ثبوت نہیں تو پھر ایسے غیرپارلیمانی الفاظ استعمال کرنے کا کیا فائدہ ۔ اس سے حکومت کی اپنی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ تحریک انصاف نئی نئی اقتدار میں آئی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا دورانیہ مکمل کرے اور جو کچھ وہ پاکستان کی ترقی کے لئے کرنا چاہتی ہے کرے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے نیک مقاصد میں کامیاب کرے۔ آمین ۔لیکن گزارش ہے کہ اسکی لیڈر شپ گفتار کے غازی بننے کی بجائے کردار کی غازی بنے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024