ریاست مدینہ کی پہلی جھلک دکھائی دی۔ لاہور کی سڑکوں اور پیدل گزرگاہوں پر رات گزارنے پر مجبورلوگوں کیلئے فلاحی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ 5 سرچھپانے کی جگہیں شیلٹرز ہومز تعمیر ہوں گے۔لاہورمیں مجوزہ 5 ’پناہ گاہیں‘ مسافروں اور ناداروں کوعارضی چھت اور دو وقت کھانا فراہم کریںگی۔
شاعر سوزوگداز
افتخار عارف نے بار الہی میں فریاد کی تھی
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کردے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہوسکے تو دعائوں کو بے اثر کردے
بے گھر اور بے چھت ہونے کا دکھ وہی جانتا ہے جو بے گھر ہوا ہو۔ بے وطن ہوا ہو اوربے رحم موسموں کا شکار ہوا ہو۔ حضرت آدمؑ کے بہشت سے نکلنے کی داستاں کو ’بے گھر‘ ہونے کی اذیت میں سمویاجاتا ہے۔ مرحوم عزیز میاں نے قوالی کے رنگ میں یہ کلام سناکر یہ درد سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ …؎
میرا مقام عرش تھا
لیکن اب فرش ہے
کتنی بلندیوں سے گرایا گیا ہوں
میں آسماں سے اتارا گیا
وزیراعظم عمران خان نے انتہائی مالدار میمن برادری کے وفد سے گفتگو میں کہا کہ ’لوگوں کے تعاون سے ایسے منصوبے کاآغازکراچی میں بھی کیاجاسکتاہے۔ وہ ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے جامع پروگرام بھی جلد شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘ دراصل یہی وہ احساس ہے جس کی جھلک عمران خان کے حالیہ اقدام میں نظرآئی۔ لاہور میں سڑک کنارے بچوں کے ہمراہ شب بسری کرنے والے خاندان کی تصویر نے یہ احساس اجاگر کیا۔ ایک دکاندار نے اس خاندان کو سامان اور دیگر اشیاء خرید کر دینے کا بھی وعدہ کیا۔
دنیا بھر میں بے گھر اور بے آسرا موجود ہیں۔ امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر دنیا کے ہر کونے، خطے اور معاشرے میں یہ لوگ موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بے گھر افراد کی تعداد دس کروڑ بتائی گئی تھی اور سولہ کروڑ ایسے تھے جن کے پاس مناسب رہائشی سہولت نہیں۔ بے گھر کون ہوتا؟ اس کی تعریف و تعین کے معاملے میں دنیا بھر میں ہر کسی کا الگ پیمانہ ہے۔
سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بْک 2016ء نے یو این ڈی پی 2016 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے بتایا کہ پاکستان کی بیس کروڑ کی آبادی میں دس میں سے ہر چوتھا فردغربت کا شکار ہے۔ پی ڈی پی فاو نڈیشن کا تخمینہ ہے کہ دوکروڑ افراد بے گھر ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم فخر کیاکرتے تھے کہ ہمارے ہاں کوئی شخص فٹ پاتھ پر نہیں سوتا لیکن اب حال یہ ہے کہ لاہور ہی کیا، دیگر شہروں میں بھی ہمیں ایسے منظردکھائی دیتے ہیں۔ جو معاشرے کی دینی، اخلاقی اور سماجی قدروں کے علاوہ ریاستی بے حسی کا بھی منہ چڑاتے ہیں۔
ہر روز نت نیا گولہ بارود جمع کرنے والے بھارت میں سات کروڑ اسی لاکھ لوگ بے گھر ہیں۔ ان میں ایک کروڑ دس لاکھ ’سٹریٹ چلڈرن‘ ہیں۔امیر کبیر جاپان اور ہانگ کانگ میں تقریبا چالیس فیصد آبادی رعایتی گھروں میں سکونت پزیر ہے۔ ایک لاکھ کے قریب ’کفن گھروں‘ (Coffin homes) پنجرہ گھروں (Cage Homes) اور چھتوں (Rooftops) پر رہتے ہیں۔ سٹی یونیورسٹی آسٹریلیا میں دس لاکھ پانچ ہزار افراد بے گھر ہیں۔ ان میں سے 44 فیصد خواتین ہیں اور 12 فیصد بچے ہیں جن کی عمر بارہ سال سے کم ہے۔ تیس فیصد بے گھر افراد آسڑیلیا سے باہر پیدا ہوئے تھے۔انٹرنیشنل نیٹ ورک آف سٹریٹ پیپرز 2006ء کے مطابق جاپان میں پچیس ہزار افراد بے گھر ہیں، ان میں سے پانچ ہزار ٹوکیو میں رہتے ہیں۔ تیس لاکھ انٹرنیٹ کیفے مہاجرین(Cafe refugees internet) ہیں جو رات کو ایک سے دوسرے کیفے چلے جاتے ہیں۔
اسرائیل میں دوہزار افراد گلیوں میں رہتے ہیں۔ ایک ہزار مزید ایسے بھی بتائے جاتے ہیں جن کی کسی نے کبھی کوئی خبر ہی نہیں لی۔ ہاریٹز اخبار کی رپورٹ کے مطابق بے گھر کی مناسب تعریف نہ ہونے کی وجہ سے دس ہزار افراد نامناسب رہائشی حالات میں اسرائیل میں رہ رہے ہیں۔ انڈونیشیا میں تیس لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہیں۔ جکارتہ میں اٹھائیس ہزار سے زائد بے گھر بتائے گئے۔یورپ پر نظردوڑائیں تو آسٹریا میں صرف ویانا میں بے گھر افراد کی سروس استعمال کرنے والوں کی تعداد تین ہزار نوسو سات ریکارڈ کی گئی۔ گزشتہ پندرہ سال میں ویانا اور سالزبرگ میں بے گھر افراد کی سروس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ زیریں آسٹریا میں بے گھر ہونے کے حوالے سے صورتحال بہتر بتائی جاتی ہے۔بیلجیئم میں 2010ء میں تین ہزار ایک سو پچاسی افراد نے برسلز میں بے گھر افراد کی سروس استعمال کی۔فلینڈرز میں آٹھ ہزار چھ سو سے زائد افراد نے ہاسٹلز میں رہائش اختیار کی یا رہائش کیلئے مدد حاصل کی۔ ویلونیا میں پانچ ہزار اضافی افراد بے گھر ہیں۔
ڈنمارک میں 2011ء میں پانچ ہزار دوسو نوے افراد نے ایک ہفتے میں خود کو بے گھر کے طورپر اندراج کرایا۔ 2010ء میں چھ ہزار افراد بے گھر افراد کے ہاسٹل میں ٹھہرے۔ برطانیہ میں 2013ء میں ایک لاکھ بارہ ہزار ستر افراد نے خود کو بے گھر بتایا۔ یہ تعداد چار برس میں بے گھر افراد میں 26 فیصد اضافہ دکھارہی ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کی 2014ء کی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں لندن میں کھلے آسمان تلے، گلیوں، گزرگاہوں میں رہنے والوں کی تعداد میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعدادچھ ہزار چارسو سینتیس بتائی گئی ہے۔فن لینڈ میں 2011ئ میں ایک روزہ سروے میں سات ہزار پانچ سو بہتر افراد بے گھر پائے گئے۔1080 کے بعد اب تک فن لینڈ میں بے گھر کی تعداد میں پچاس فیصد کمی ہوئی ہے۔ فن لینڈ حکومت کی بے گھر افراد کے مسئلے سے نمٹنے کی حکمت عملی کے نتیجے میں خاطرخواہ بہتری آئی ہے۔یونان میں بے گھر افراد کی بیس ہزار کی تعداد 2013ء کی رپورٹ کے مطابق دوگنا ہوچکی ہے۔ یہ اضافہ 2009سے شروع ہوا ہے۔2013ء کی رائیٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011ء میں چونتیس لاکھ لوگ غربت میں زندگی گزاررہے ہیں۔
2012ء کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں دو لاکھ چوراسی ہزار افراد کو جگہ دستیاب نہیں کہ وہ کہاں رہائش پزیر ہوں۔ 2010کے مقابلے میں بے گھر افراد میں یہ 15 فیصد اضافہ ہے۔ ڈوشے ویلے کی 2014ء کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیاگیا ہے کہ 2016ء تک بے گھر افراد کی اس تعداد میں مزید تین لاکھ اسی ہزار افراد کا اضافہ ہوجائے گا جو تیس فیصد مزید ہے۔ فرانس میں 2012ء میں بالغ بے گھر افراد کی تعداد ایک لاکھ تین ہزار تھی جنہوں نے ہنگامی رہائش یا (Soup Kitchen) سے رابطہ کیا۔ اس میں تیس ہزار بچے بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ 2012ئ میں مجموعی طورپر بے گھر افراد کی فرانس میں تعداد ایک لاکھ اکتالیس ہزار پانچ سو بتائی گئی۔2001ء کے مقابلے میں یہ پچاس فیصد اضافہ ہے۔
روس میں 2014ء تک بے گھر افراد کی تعداد پچاس لاکھ ہے جو 3.5فیصد آبادی ہے۔ ان میں دس لاکھ بچے ہیں جن میں سے پچاس ہزار ماسکو میں موجود ہیں۔ گرمیاں تو خیر سے گزر رہی جاتی ہیں لیکن اصل مسئلہ روس میں سردیوں میں ان بے گھر افراد کو ہوتا ہے۔ 2012-13ء میں صرف سینٹ پیٹرز برگ میں ایک ہزار بیالیس بے گھر افراد سردیوں میں ہلاک ہوگئے تھے۔سویڈن میں 2011ء میں نیشنل بورڈ آف ہیلتھ اینڈ ویلفئیر نے چونتیس ہزار بے گھر افراد کی نشاندہی کی تھی۔ 2005 سے سویڈن میں بھی بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے البتہ کھلے آسمان تلے سونے والوں کی تعداد نہایت قلیل بتائی گئی ہے۔سویٹزرلینڈ میں سرکاری طورپر بے گھر افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ برطانوی اخبار گارڈین کی 2014ء کی رپورٹ میں کہاگیاتھا کہ سویڈن میں اگرچہ بے گھر افراد دکھائی نہیں دیتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بے گھر افراد یہاں موجود نہیں۔ 2005ء میں سویٹزرلینڈ کے ایک ہفت روزے نے رپورٹ دی تھی کہ 2000سے 2003ء کے درمیان کینٹین زیورخ میں بے گھر افراد کیلئے ایک رات گزارنے کیلئے دستاب بستروں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں بے گھر لوگوں کیلئے شیلٹر ہوم منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں غریب افراد کی تقدیر بدلنے کیلئے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی تمام تنظیموں کو یکجا کرنے کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ وہ چین کے تیس سال میں ستر کروڑ افراد کو غربت کے نکالنے کے تجربے سے استفادہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنانے کے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے لاہور میں بے گھر افراد کیلئے شیلٹر ہوم کے قیام کو انہوں نے اسی سمت میں ایک قدم قرار دیا ہے۔ راولپنڈی، پشاور اور کراچی میں بھی ایسے شیلٹر ہومز کا قیام عمل میں لانا چاہتے ہیں۔
بانی پاکستان نے ایسی فلاحی اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں تمام شہریوں کو رنگ’ نسل‘ زبان اور صنف سے بالاتر ہوکر یکساں حقوق حاصل ہوں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی کارکردگی کو عمران خان سراہتے ہیں، انہیں وہ وسیم اکرم اور انضمام الحق کے استعارے کے طورپر پنجاب میں استعمال کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ اس لئے بنایا ہے تاکہ جنوبی پنجاب کے محروم علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جاسکے۔شیلٹر ہوم کی تعمیر کا مقصد ایسے لوگوں کی عزت نفس کو بحال کرنا ہے جو آسمان تلے رات گزارتے ہیں۔ یہ منصوبہ محفوظ مقامات کے قیام کے ذریعے مستحق افراد کی ضروریات بھی پوری کرے گا۔ منصوبے میں اہم سماجی مقاصد پر تربیت دینے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے پروگراموں کیلئے کثیر المقاصد ہالز کی تعمیر بھی شامل ہے۔ایسے ہالز یورپ میں تعمیر کئے گئے تھے جو بے گھر ہوں اور انہیں سرچھپانے کا کوئی ٹھکانہ میسر نہ ہو۔
ریاست مدینہ کی یہ سوچ تھی کہ مسافرخانے بنائے جائیں تاکہ کسی بھی شہر میں کوئی بے آسرا نہ رہے۔ آج یورپ میں ہاسٹلز، شیلٹرز سمیت ایسے ٹھکانہ آقائے محترم رحمت للعالمین کی احترام انسانیت اور محبت کی زندہ مثال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عمران خان کا یہ احساس ریاست کی سطح پر احساس کا رنگ اوڑھ لے تو ریاست مدینہ بن جائے گی۔ پھر کسی کونعرہ، بیان یا ٹاک شو میں کف نہیں اڑانے پڑے گی کہ تبدیلی آرہی ہے یا آچکی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024