یہ 2016ء کی بات ہے جب عوام کی جانب سے 2016 میں ریفرنڈم میں یورپی یونین سے نکلنے کے لیے 51.9 فیصد نے اس تجویز کے حق جبکہ 48.1 فیصد نے اس کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین میں ’’طلاق‘‘ کا کیس چل رہا ہے ، یورپی یونین کے اکثر ممالک چاہتے ہیں کہ برطانیہ علیحدگی اختیار نہ کر ے جبکہ برطانوی کابینہ نے ’’علیحدگی‘‘ کے معاملے کی گزشتہ روز توثیق کر دی ہے جس پر برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے کہا ہے کہ ان کی کابینہ نے برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی یعنی بریگزٹ کے حوالے سے ایک مجوزہ معاہدے کی حمایت کر دی ہے۔ وزیراعظم نے یہ اعلان بدھ کو پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد کیا ہے۔ اب ممکنہ طور پر برطانیہ 29 مارچ، جمعے کی دوپہر 11 بجے یورپی یونین سے باہر نکل جائے گااور الگ تھلگ ریاست کے طور پر سامنے آئے گا۔ برطانیہ میں یورپی یونین سے نکلنے کی بحث کا آغاز بھی 2014 میں قوم پرست انڈیپینڈنٹ پارٹی کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس لئے اس وقت ڈیوڈ کیمرون کو انتخاب جیتنے کی صورت میں ریفرنڈم کروانے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ 2015 میں انتخاب جیت کر انہیں اپنا وعدہ پورا کرنا پڑا۔ لیکن وہ یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے ریفرنڈم میں کامیابی کیلئے کوشش کی لیکن مشرقی اور جنربی یورپ کے بحران زدہ ملکوں سے آنے والے تارکین وطن کی آمد کے معاملہ پر ملک میں خوف کی کیفیت پیدا کر دی گئی۔ریفرنڈم میں بریکسٹ (یہ لفظ BREXIT برٹن اور ایگزٹ کا مخفف ہے۔ اسے یورپی یونین سے نکلنے کی تحریک کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے) کی کامیابی دراصل اسی خوف کی کامرانی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس معاہدے کی بات کی جارہی ہے کیا وہ معاہدہ ہو جائے گا یا نہیں؟ لیکن اس حوالے سے ٹریزامے کو اُمید ہے کہ معاہدہ اسی ہفتے کے آخر میں ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق برطانوی حکومت نے یورپی یونین سے نکلنے کے لیے معاہدے کا ایک مسودہ تیار کیا ہے۔ یہ 583 صفحات پر مشتمل دستاویز ہے۔ اس مجوزہ معاہدے میں ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنھیں عام طور پر طلاق کے معاملات کہا جا رہا تھا۔ اس میں اس بات کا عزم کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں مقیم یورپی شہریوں اور یورپ میں رہنے والے برطانوی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔اس میں مارچ 2019 میں برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے بعد 19 ماہ کا ایک منتقلی دورانیہ بھی رکھا گیا ہے اور مالی حوالے سے برطانیہ کی جانب سے 39 ارب پاؤنڈ کی ادائیگی بھی رکھی گئی ہے۔مذاکرات کا سب سے متنازع حصہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اگر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدہ نہیں ہوتا تواس بات کی ضمانت دی جائے کہ برطانیہ اور آئرلینڈ کی سرحد پر لوگوں کی آمد و رفت کے لیے چیک پوسٹیں نہیں بنائی جائیں گی۔ان اقدامات میں برطانیہ اور یورپی یونین کو ایک مشترکہ کسٹمز علاقے مانا جائے گا تاکہ سرحد پر چیک پوسٹوں کی ضرورت نہ پڑے۔
حقیقت میں یورپی اتحاد کیوں ضروری ہے؟ اور دنیا اسے قائم کیوں دیکھنا چاہتی ہے اس حوالے سے یورپی اتحاد کی اگر بات کی جائے تویہ براعظم یورپ کے28 ممالک کا اتحاد ہے۔ اس کے قیام کے اقتصادی و سیاسی مقاصد تھے۔ 28 میں سے 18 رکن ممالک واحد کرنسی ’یورو‘ استعمال کرتے ہیں۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کو کسی تیسری جنگ سے بچانا، دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ممالک پرامن انداز میں رہنا اور ایک دوسرے کی معیشت کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ 1952ء میں مغربی جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیئم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ نے کوئلے و اسٹیل کی واحد یورپی کمیونٹی تشکیل دی۔1957ء میں اس کے رکن ممالک نے اطالوی دارالحکومت روم میں ایک اور معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یورپی اقتصادی کمیونٹی تشکیل دی۔ اب یہ کمیونٹی کوئلے، اسٹیل اور تجارت کے لیے تھی۔ بعد ازاں اس کا نام تبدیل کرکے یورپی کمیونٹی رکھ دیا گیا۔
1992ء میں معاہدہ ماسٹرچٹ کے تحت اس کا نام یورپی یونین رکھا گیا۔ اب یہ ممالک نہ صرف سیاست اور اقتصادیات میں بلکہ دولت، قوانین اور خارجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ شینجن معاہدے کے تحت 13 رکن ممالک نے اپنی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے کھول دیں اور اب ان کے باشندے بغیر کسی پاسپورٹ یا ویزے کے ان ممالک کے درمیان سفر کرسکتے ہیں۔ 2002ء میں 12 رکن ممالک نے اپنی قومی کرنسیوں کی جگہ یورو کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 2004ء میں 10 اور 2007ء میں 2 نئے ممالک نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔ 2014ء میں کرویئشا نے شمولیت اختیار کیا۔ اب یورپی یونین کے کل ارکان کی تعداد 28 ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسی پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی کوئی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر معیاری مصنوعات کے قانون کے تحت فروخت کی جاسکتی ہیں۔
لہٰذا2016کے ریفرنڈم کے بعد برطانیہ کو آج دوراہے پر لاکھڑا کر دیا گیا ہے۔ ایک رکن کے طور پر برطانیہ متعدد معاہدوں ، پروٹوکول اور قواعد و ضوابط کا پابند تھا۔ اس لئے علیحدگی کے عمل میں ان سب کو تبدیل کرنے کیلئے طویل مذاکرات ہوں گے۔ اس مقصد کیلئے معاہدہ لزبن میں دو سال کی مدت رکھی گئی ہے۔ لیکن برسلز کی طرف سے جلدی کرنے کے جو اشارے دیئے جا رہے ہیں، ان کی روشنی میں تو کہا جا سکتا ہے کہ یورپی لیڈروں کی خواہش ہو گی کہ یہ عمل جلد از جلد پورا ہو۔ اس خواہش کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین کے لیڈر اتحاد کو مزید نقصان سے بچانے اور دیگر 27 رکن ملکوں میں بے یقینی اور بے چینی کو ختم کرنے کیلئے نئے اور ٹھوس اقدامات کا فیصلہ کرنا چاہیں گے، جو برطانیہ کے شامل رہنے کی صورت میں ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ یورپی یونین برطانیہ کی علیحدگی کے بعد لندن کیلئے سخت تجارتی اور معاشی شرائط بھی عائد کر سکتی ہے۔ اس طرح دیگر رکن ملکوں کو یہ پیغام دیا جا سکے گا کہ یونین چھوڑنے کی صورت میں انہیں کیسی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
یورپی اقتصادی اتحاد کی تاریخ میں کسی رکن ملک کی علیحدگی چونکہ ایک نیا تجربہ ہے، اس لئے کوئی بھی یہ پیش گوئی کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ اس علیحدگی کا برطانیہ کی معیشت یا یورپی یونین کے مستقبل پر کیا اثر مرتب ہو گا۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ اس عمل کے اقتصادی اثرات کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’’منفی اور شدید‘‘ ہوں گے۔علیحدگی کے حق میں فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی اس کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ برطانیہ کے علاوہ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ پر اس فیصلہ کا منفی اثر مرتب ہوا تھا۔ برطانوی اسٹرلنگ پاؤنڈ کی مالیت میں دس فیصد تک کمی نوٹ کی گئی تھی۔ ماہرین اقتصادیات یہ قیاس کر رہے ہیں کہ علیحدگی کے نتیجے میں برطانوی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے اور ملک کی قومی پیداوار کے علاوہ برآمدات بھی بری طرح متاثر ہوں گی۔ یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دوسرے یورپی ملکوں سے لوگوں کی آمد رک جانے اور ملک میں دوسرے ملکوں سے آنے والے امیگرنٹ ورکرز کے واپس جانے کی صورت میں ملک کے بڑے شہروں میں املاک کی قیمتوں پر منفی اثر مرتب ہو گا۔ صنعتوں کے علاوہ تجارت اور خاص طور سے سیاحتی شعبہ بری طرح متاثر ہو گا۔
جس طرح یورپ میں اقتصادی تعاون و اشتراک کو بڑھانے اور مل جل کر معیشت کو بڑھاوا دینے کی خواہش کے نتیجے میں یورپی یونین وجود میں آئی تھی، اس طرح اس کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں میں انتہا پسند قوم پرستوں کا اثر و رسوخ واضح طور سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے خواہشمند بعض لیڈر اور اکثر لوگ بنیادی طور پر ملک کی معاشی بدحالی ، بے روزگاری میں اضافہ اور قومی معاملات پر کنٹرول بحال کرنے کیلئے اس مہم میں شامل تھے۔ لیکن اس کے نتیجے میں فاصلہ اور دوری پیدا کرنے کا جو رویہ ابھر کر سامنے آیا ہے، وہ تعصب ، امتیازی سلوک اور کسی حد تک نسل پرستانہ رجحان کی تقویت کا سبب بنے گا۔ لیکن فیصلہ جو بھی ہوا نقصان برطانوی عوام کا ہوگا جبکہ فائدہ قوم پرستوں کو ہوگا اور فائدہ بھی مالی نہیں بلکہ محض ذہنی تسکین حاصل ہو سکے گی!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024