مکرمی! ہماری زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن اس اہم ہڈی کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ڈیزل زراعت اور باربرداری کی جان ہے۔ ڈیزل کی مہنگائی نے ہماری زراعت کو چاٹ لیا ہے، جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اور ڈیزل ایجاد ہوا ہے کسی بھی حکومت نے ڈیزل پٹرول سے مہنگا نہیں کیا۔ محترمہ بے نظیر کے دوسرے دور میں ڈیزل 10روپے کا 9 لیٹر کیا گیا، میاں صاحب آئے انہوں نے ڈیزل 100 روپے کا 10 لیٹر کردیا، کسان اس تھوڑی رعایت پر بھی خوش ہوگیا، جنرل کے دور کے اختتام تک گندم 625/- روپے من اور ڈیزل 44.25 روپے لیٹر قائم رہا۔ زرداری صاحب کی عوام دوست حکومت آئی۔ فوری طور پر گندم 625/- روپے سے 950/- روپے من کردی گئی اور اسی حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے ڈیزل پٹرول سے مہنگا کردیا۔ اپنے پانچ سالہ دور کے اختتام تک گندم 1200/- روپے من اور ڈیزل 107/- روپے لیٹر تک پہنچا دیا۔ بھلے دنوں کے آنے کی امید کی دعائیں مانگتے مانگتے میاں صاحب کی جمہوریت آگئی، خوشی ہوئی کہ ان کے وعدوں کے مطابق غریب کے دن پھر جائیں گے لیکن شومئی قسمت ہماری دعائیں الٹی ہوگئیں۔ آتے ہی انسانی اور حیوانی زندگی کی روزمرہ کی ضرورت کی ہر چیز کی قیمت میں کمر توڑ اضافہ ہو گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ڈیزل کو بھی ایک دھکا اور لگا کر 117/- فی لیٹر کردیا۔ اس طرح کسان اور مزدور کی زندگی ایک شکنجے میں کس دی گئی۔ اب بمشکل تمام آنے والی گندم کی فصل کے لئے ڈیزل قدرے سستا تو کردیا گیا لیکن بیچارے غریب مزدور سے کونسا کبیرہ گناہ سرزد ہوگیا کہ گندم کی قمیت 1300/- روپے فی من مقرر کر کے اس کے بھوکے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔ مزید ایک اور غریب دوست سیاسی دانشور میاں منظور وٹو نے سوتے میں گندم 1500/- روپے فی من مقرر کرنے کی تجویز داغ دی ہے۔ اب بندہ کس کس کی عقل پر نوحہ کرے کہتے ہیں۔ (محبوب جنجوعہ، ماڈل ٹائون لاہور)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024