دور ِ حاضر میں مسلمانوں کا مسئلہ .... (آخری قسط)

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں وہ لوگ کبھی بھی کامیاب نہ ہوئے جو کسی خطہ میں اسلامی نظام کو رائج کرنا چاہتے تھے۔ اسلامی معاشرہ کبھی بھی اسلامی جماعتوں یا تحریکوں کے ذریعے قائم نہیںہوا۔ اسلامی معاشرہ صرف ان افعال و افکار اور محسوسات کی ضمنی پیداوار (by product) کے طور پر ابھر سکتا ہے جن کا مقصد انسانی زندگی کے حوادث سے وراءاللہ کی خوشنودی کا حصول ہو۔ والذین جاھدوا فینا لنھدینہم سبلنا (سورة ۲۹ آیت ۶۹: اور وہ لوگ جو جدوجہد کرتے ہیں ہماری خاطر تو ہم ضرور دکھائیں گے انہیں اپنے راستے)کا تعلق جتنا تقویٰ و پارسائی سے ہے اتنا ہی سیاسی عمل سے بھی ہے۔ لہٰذا نرے عملی اقدامات بلکہ اعمال و افعال کی بڑی سے بڑی تعداد بھی ہمارے مسائل اس وقت تک حل نہیں کر سکتی جب تک اس میں یہ بنیادی شرط مفقود رہے گی مگر ہم منافقت میں اپنی ترجیحات اور عقائد کا کھل کر اعلان نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک ذہنی دھندلکے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام کا مرکزی اصول اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے اور یہ خوشنودی اللہ تعالیٰ کے دیئے گئے اصولوں اور احکامات پر بعینہ عمل کر کے حاصل ہوتی ہے۔اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے کوئی نظام نہیں۔ جب ہمارے علماءنے اللہ کے دین کو ایک نظام بنا دیا اور یہ زمینی حقائق اور معاملات میں قید ہو کے رہ گیا اور لوگوں کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے کٹ گیا۔
اسلامی نظریاتی تحریک کا ماڈل اسکے علاوہ اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا کہ وہ مومنین اور صالحین کی ایک مختصر سی جماعت (Party Cader) کے ذریعے پوری مسلمان قوم کو متحرک کر کے سیاسی غلبہ حاصل کر لے اور قانون اسلام نافذ کر کے باقی ماندہ قوم کی اصلاح کر دے۔ اس طرح اسلامی نظریاتی تحریک کا مطمح نظر نفاذ اسلام ہوتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول جماعت اسلامی مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین اور مبشرین کی جماعت نہیں بلکہ خدائی فوجداروں کی ایک جماعت ہے اور جو کام جماعت نے اپنے ذمہ لیا ہے وہ حکومت کے اقتدار پر قبضہ کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسکے برعکس علامہ محمد اقبال احیائے اسلام کےلئے ثقافتی تحریک کو چُنتے ہیں جس کا مطمح نظر نفوذ اسلام ہوتا ہے۔ ثقافتی تحریک کا مقصود جمہور کی فکری‘ معاشی اور سیاسی اصلاح کے ذریعے تبدیلی لانا ہوتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جب معاشرے فکر و عمل کے میدان میں پسماندہ ہو جاتے ہیں تو وہ کارگر عمل کرنے کی بجائے لفظوں اور نعروں پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دور میں جب اسلامی معاشرے ہر طرح سے ناکام ہو چکے ہیں اور اُن میں چوری اور راہزنی، بد اعمالی اور رشوت ستانی، قتل و غارت اور دہشت گردی سکہ مروجہ بن چکے ہیں تو ہر طرف سے نفاذ خلافت کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ دراصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ وہاں قائم ہوتا ہے، جہاں پر اللہ والے جمع ہو جائیں۔
پاکستان میں ہمارا بنیادی مسئلہ نفاذ اسلام کا ہے یا دوسرے الفاظ میں اسلامی ریاست کے قیام کا ہے۔ نفاذ اسلام یا اسلامی ریاست کے قیام پر اس قدر شور و غوغا کے برعکس انکے متعلق ہمارا فہم ناقص اور فرسودہ ہے۔ اسلامی اصطلاحوں کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم عموماً غلط بحثوں میں پڑے رہتے ہیں اور حقیقت شفاف ہونے کی بجائے مزید دھندلا جاتی ہے۔ ہماری کم فہمی کا تو یہ عالم ہے کہ ہم ”خلافت“ کو ”اسلامی ریاست“ سے مختلف شے تصور کرتے ہیں۔ خلافت کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر قائم شدہ ریاست کےلئے استعمال ہوتی ہے اور امامت یا امارت سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے، جو خلافت کے ارادوں کی تنفیذ اور اسکے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو فرق سٹیٹ اور گورنمنٹ کے درمیان ہے اسی قسم کا فرق خلافت اور امامت و امارت کے درمیان ہے۔
ہمارے علماءاور دینی زعما منطق کی غلط علتوں کا شکار ہیں۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اصل بات باطن کی سیرت سازی کی ہے نہ کہ خارجی ڈھانچوں کے نعرے لگانے کی۔ قیام خلافت کے پُرجوش نعرے لگانے والے یہ بات بالکل بھول جاتے ہیں کہ قیام خلافت کے لئے صلاحیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ خلافتِ راشدہ کی اساس خلفاءراشدین کے عظیم اخلاق و کردار پر تھی۔ ہمارے معاشرہ کی توجہ اس طرف مبذول نہیں ہو رہی کہ اگر ہم نے ایک اسلامی ریاست یا خلافت قائم کرنی ہے تو ہمارا مقصد ایسے کامل اور جامع انسان پیدا کرنے کا ہونا چاہئے جو مسجود ملائکہ بننے کے اہل ہوں۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اسلامی معاشی نظام ایک اسلامی معاشرہ میں ہی قائم ہو سکتا ہے اور اسلامی معاشرہ تبھی قائم ہوتا ہے جب لوگوں کے دل بدل جائیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہو جائے۔ دراصل عربی لغت دلوں کے بدلنے ہی کو انقلاب کا نام دیتی ہے۔