لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی، سپیکر نے سیز فائر کرایا۔ حکومت قانون سازی کرنے میں ناکام رہی۔ کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 1 گھنٹہ 7 منٹ کی تاخیر سے سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میںشروع ہوا۔ سپیکرگذشتہ روز بھی وزراء اور سیکرٹریز کی ایوان میں عدم موجودگی سخت برہم ہوئے اور وزراء اور سیکرٹریز کی ہاؤس میں مسلسل عدم موجودگی کو انتہائی شرمناک قرار دیتے ہوئے اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کردیا، اور سیکرٹری اسمبلی کو وزراء کی عدم موجودگی بارے تحریری طورپر شکایت کرنے کی ہدایت کردی۔ جبکہ محکمانہ سیکرٹریز کی عدم موجودگی پر سپیکر نے چیف سیکرٹری سے خود ٹیلی فونک رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ہدایت کی کہ سیکرٹری اسمبلی چیف سیکرٹری سے میری بات کروائیں کہ سیکرٹریز ایوان میں کیوں نہیں آتے؟۔ رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے پارلیمانی سیکرٹری برائے وویمن ڈویلپمنٹ ایوان میں ہی موجود نہ ہونے کا انکشاف کیا اور کہا کہ بدھ کے روز بھی یہی صورتحال تھی۔ سپیکر نے عندیہ دیا کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور چیف سیکرٹری کو کہیں گے کہ وزراء ایوان میں آتے ہی نہیں۔ اپوزیشن رکن رانا آفتاب احمد نے بھی وزراء و سیکرٹریز کی عدم حاضری کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ میں اسلام آباد سے چار سو کلومیٹر طے کرکے ادھر آیا ہوں لیکن ایوان تو خالی ہے۔ وقفہ کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اپوزیشن ایوان میں نعرے بازی کرتے ہوئے داخل ہوئی۔ ویمن ڈویلپمنٹ سے متعلقہ وقفہ سوالات میں پارلیمانی سیکرٹری برائے ویمن ڈویلپمنٹ سعدیہ تیمور نے کہا کہ محکمہ ترقی خواتین کے زیر اہتمام فی الوقت خواتین کی سکلز ڈویلپمنٹ کے حوالے سے کوئی ادارہ یا مرکز کام نہیں کررہا۔ خواجہ عمران نذیر کا کہنا تھا کہ وویمن ڈویلپمنٹ کو ہمارے دور میں ہی کام ہوا اور ہو رہا ہے کوئی اور کسی حکومت نے توجہ نہیں دی ہے، خواتین کو ترقی، خواتین کا محکمہ سکلز ٹریننگ دے رہے ہیں۔ سعدیہ تیمور کے ہوتے ہوئے ترقی خواتین کا محکمہ ضرور ترقی کرے گا، جس پر سپیکر نے کہا کہ وویمن ڈویلپمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی، کاکس سمیت دیگر کمیٹیوں سے لوگ لے کر دیہاتی خواتین جو لیبر کا کام کرتی ہیں اس پر توجہ دی جائے۔ رکن اسمبلی طاہرہ مشتاق نے انکشاف کیا کہ دیہات تو دور کی بات شہروں میں بھی خواتین کو محنت کا معاوضہ نہیں دیاجاتا۔ راحیلہ خادم حسین کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کیلئے وویمن ڈیپارٹمنٹ کو اونر شپ لینی چاہیے۔ رکن اسمبلی سعید اکبر نوانی نے کہا کہ عورت کو بے رحمی سے عزت کے نام پر ذبح کیاجاتا ہے، جب کہیں آپس میں خواتین کی لڑائی ہوتی ہے مظلوم عورت پر ظلم ڈھایا جاتا ہے۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید نے نقطہ اعتراض میں شیخوپورہ کی 14سالہ بچی کی کم عمری میں شادی کا معاملہ ایوان میں اٹھایا۔ شیخوپورہ کا ایک ایس ایچ او اتنا مضبوط ہے کہ وہ ہر بار بچی کی شادی کے متعلق مفصل رپورٹ حکومت کو بھیج دیتا ہے، کبھی پولیس کہتی ہے کہ بچی کے نکاح میں اس کا بھائی تو کبھی اس کا باپ رضا مند تھا یہ کہہ کر ملزمان کے خلاف کچھ نہیں کیاجاتا۔ سپیکر نے امجد علی جاوید کو بچی کی شادی کے معاملہ پر تحریک التوائے کار جمع کروانے کی ہدایت کی۔ اپوزیشن رکن اعجاز شفیع کے کہنے پر اپنے حلقہ کے بلوچستان میں دو سگے بھائیوں کے بہیمانہ قتل پر دعائے مغفرت کرائی گئی۔ عظمی بخاری کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کو جنگ کی نگرانی کرنے کے بیان پر سوال پنجاب اسمبلی پہنچ گیا۔ اپوزیشن کے رکن بریگیڈیئر مشتاق کا کہنا تھا کہ عظمی بخاری کے بیان پر نیشنل اور سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔ وزیر اطلاعات بتائیں کہ جنگ میں نواز شریف نے کیا کردار ادا کیا۔ جس پر سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ میں نے یہ بیان دیکھا نہیں، عظمی بخاری سمجھدار وزیر ہیں۔ مناسب یہ ہوگا کہ وہ ایوان میں خود آکر اپنے بیان کہ وضاحت کریں۔ اپوزیشن رکن وقاص مان نے پنجاب میں جرائم کے بڑھتے واقعات پر پنچایت سسٹم لانے کا مطالبہ کردیا ، ان کا کہنا تھا کہ صوبہ بھر میں لین دین کے معاملہ پر قتل و غارت گری ہوتی ہے، لین دین کے دوران قتل و غارت پر دادا کیس لڑتا تو پوتا اس کا بھی کیس لڑتا ہے۔ وزیر قانون صہیب بھرتھ اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، اپوزیشن کا شور شرابا، وزیر قانون کا کہنا تھا کہ گھبرانا نہیں ابھی تو بات کرنی شروع کی ہے، اپوزیشن والے ڈبل مزے لے رہے ہیں، پولیس سے کام بھی لیتے ہیں اور جب دل کرتا ہے الزام لگاکر چلے بھی جاتے ہیں۔ اس دوران وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن بھی شور شرابے میں کود پڑے۔ اپوزیشن نے احتجاج کے دوران ایوان میں ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں، ڈپٹی سپیکر اعجاز شفیع اور اپوزیشن ارکان کے احتجاج پر غصہ میںآگئے، ڈپٹی سپیکر کا کہنا تھا کہ میں اجازت دیتا ہوں وزیر قانون بات کریں گے دیکھتا ہوں کون بات نہیں کرنے دے گا۔ ڈپٹی سپیکر کا کہنا تھا کہ اعجاز شفیع آپ مجھے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے، وزیر قانون ملک صہیب بھرت کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ ہم نے بھی پالیسی بنائی ہوئی ہے یہ شور کرتے رہیں، یہ اپنے کام بھی کرواتے ہیں اور تنقید بھی کرتے ہیں، یہ ان کا دوہرا چہرہ ہے۔ صوبائی وزیر قانون ملک صہیب بھرت کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ اپوزیشن کے معاملات کو حل کروایا ہے۔ قانون سازی کے دوران اپوزیشن رکن بریگیڈئر مشتاق کی جانب سے کورم کی نشاندہی کردی گئی ، حکومت کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے قانون سازی کرنے میں ناکام رہی۔ اجلاس آج جمعہ 16مئی دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا۔
پنجاب اسبملی : حکومت ‘ اپوزیشن میں سخت جملوں کا تبادلہ ‘ نعرے ‘ ایوان مچھلی منڈی بن گیا
May 16, 2025