ایشیا میں نئی قیادت، نیا نقشہ۔

May 16, 2025

عبداللہ طارق سہیل

ادھر جنوبی ایشیا کا سٹریٹجک نقشہ بدلا۔ پاکستان ’’لیڈر‘‘ بن کر ابھرا اور بھارت کو کچھ حالات نے، کچھ چین اور پاکستان نے اور کچھ امریکہ نے دھکیل کر کونے میں ڈال دیا۔ بلکہ شاید قالین کے نیچے کر دیا، ادھر مشرق وسطیٰ میں حالات نے اچانک ہی ایسی انگڑائی لی کہ ترکی اور سعودی عرب اپنی اپنی جگہ ’’لیڈر‘‘ بن گئے۔ صدر ٹرمپ کا دورہ تاریخی تھا۔ ویسے تو ہر امریکی صدر کا ہر دورہ ہی تاریخی ہوتا ہے چاہے وہ دورہ محض جزائر گالا پاگوس کے چھپکلے دیکھنے کیلئے ہی کیوں نہ ہو لیکن صدر ٹرمپ کا کل پرسوں والا دورہ تو ایسا تھا کہ تاریخ بھی بول اٹھی کہ ہاں یہ تاریخی ہے۔ 
امریکہ کو سعودی عرب کی سرمایہ کاری درکار ہے اور سعودی عرب کو جدید امریکی ہتھیار چاہئیں۔ چند ماہ پہلے تک سعودی عرب نے فضا کو ناسازگار پا کر خاموشی سی اختیار کر لی تھی۔ جب امریکہ کہتا تھا کہ بات ہو گئی ہے، سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار ہو گیا ہے، مدر آف دی سنچری ، مدر آف آل ڈیلز ڈن ہو چکی ہیں۔ اعلان ہونا باقی ہے۔ اور سعودی عرب اس پر کچھ نہیں کہتا تھا۔ 
لیکن پھر شام آزاد ہو گیا، فضا بھی بدل گئی، ماحول بھی اور منظر بھی اور سعودی عرب نے دوٹوک فارمولا دے دیا۔ اسرائیل کو تسلیم کرانا ہے تو فلسطینیوں کو ان کا وطن دینا ہو گا یعنی ٹو نیشن تھیوری یعنی دو قومی نظریہ۔ 
______
شام میں کیا ہوا، سب کو پتہ ہے لیکن کیسے ہوا، یہ کسی کو پتہ ہے نہ کسی کو آج تک سمجھ میں کچھ آ سکی ہے۔ یہ وہ ماجرا ہے جو تاریخ میں کئی بار ہو چکا ہے اور ہر بار کوئی بھی نہیں سمجھ سکا کہ کیسے ہوا ہے۔ ٹالسٹائی پھر یاد آ گئے، اپنے ناول جنگ اور امن کی پہلی جلد میں انہوں نے کیا لکھا ہے۔ کچھ اس طرح کی بات کہ لوگ کہتے ہیں، فلاں ملک فلاں ملک پر حملہ نہ کرتا تو یہ کچھ نہ ہوتا، فلاں لیڈر اچانک مر نہ جاتا یا قتل نہ کر دیا جاتا تو یہ کچھ نہ ہوتا، فلاں واقعہ نہ ہوتا تو پھر یوں نہ ہوتا، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوتا، ایسا تو ہونا ہی تھا، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ نہ ہوتا۔ یہ ہونا ہی تھا اور جب یہ ہو گیا تو پھر جو اس کے بعد ہوا، وہ بھی ہونا ہی تھا۔ مطلب واقعات کا سکرپٹ کہیں اور لکھا جاتا ہے۔ واللہ العلم بالصواب۔ 
تو ٹالسٹائی کی تھیوری مان لیں تو سادہ جواب مل جاتا ہے کہ شام میں جو ہوا، ہونا ہی تھا۔ ایک بڑی بات یہ ہوئی کہ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ شام میں یہ ہونے والا ہے۔ امریکہ کو ، نہ اسرائیل کو، نہ ترکی کو ، نہ روس کو نہ ایران کو نہ سعودی عرب کو اور بعدازاں واقعات نے ثابت بھی کر دیا کہ واقعی میں کسی کو پتہ نہیں تھا۔ 
مثال کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان آیا کہ شام میں جو ہوا، ایسے ہی نہیں ہوا، کسی کی سازش کا نتیجہ ہے۔ مطلب یہ سازش امریکہ نے نہیں کی، کسی اور نے کی۔ کسی اور سے کیا مراد، یہ ٹرمپ کو بھی پتہ نہیں تھا۔ شاید جزائر گالا یاگوس کی ایڈمنسٹریشن نے یہ سازش کی۔ اسرائیل اس ’’انقلاب‘‘ سے اتنا بوکھلایا کہ گولان سے آگے تک اپنی فوج بھیج دی اور بشارالاسد کا چھوڑا ہوا بے پناہ اسلحہ تاک تاک کر نشانے پر لگایا اور سب کچھ برباد کر دیا کہ کہیں نئی حکومت کے ہاتھ نہ لگ جائے، مطلب جو شام میں ہوا، اسرائیل کے علم میں نہیں تھا اور اس کی مرضی کیخلاف ہوا۔ اس نے شام پر حملے بعد میں بھی جاری رکھے، قوم کو نئی حکومت کیخلاف بھڑکایا اور الوائٹ اقلیت کو بھی، جو ایران کی اتحادی تھی، بے پناہ ہتھیار دئیے۔ 
ترکی کی حکومت قطعی طور پر یہ طے کر چکی تھی کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت ناقابل شکست ہے۔ بشار مارا گیا تو بھی حکومت اسی کے قبیلے کے پاس رہے گی، بشار کا چچا آجائیگا، بھتیجا آ جائے گا ، کوئی اور رشتہ دار آ جائے گا۔ اب طویل عرصے تک اسے جھیلنا ہو گا چنانچہ سب نے دیکھا کہ آخری سال ترکی نے بشار حکومت سے اپنے تعلقات بحال کئے، خیرسگالی کے پیغام بھیجے، دوستی استوار کی، دوستی ان معنوں میں کہ اچھی، قابل عمل ہمسائیگی استوار ہو سکے۔ روس آخری دن تک اپنی فوجی موجودگی بڑھاتا رہا۔ 
یعنی کسی کو علم نہیں تھا کہ کچھ الٹ ہونے والا ہے لیکن کچھ الٹ ہو گیا اور پھر سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔ 
نتیجہ، سعودی عرب نفسیاتی طور پر تگڑا ہو گیا۔ اس کے قدیمی دشمن کی گرفت اس ملک سے ختم ہو گئی جو تاریخی طور پر سعودی عرب سے جڑا رہا ہے۔ اموی دور حکومت میں شام اس ’’خلافت‘‘ کا ہیڈ کوارٹر تھا جس کی نسلی اور مذہبی جڑیں حجاز میں تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ سعودی عرب نے شام میں اس تبدیلی کو فوراً قبول کیا، دوستی کا اعلان کیا، امداد دینا شروع کر دی اور کل اس نے ٹرمپ سے ’’تحکمانہ فرمائش‘‘ کی کہ امریکہ شام پر سے پابندیاں ختم کر دیں، چٹ منگنی ، پٹ بیاہ، ادھر سعودی فرماں روا کے منہ سے یہ فرمائش نکلی، ادھر ٹرمپ نے پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ 
ترکی جو ہئیت التحریر کو کچھ خاص پسند نہیں کرتا تھا۔ شام کے جن شمالی علاقوں (عفرین وغیرہ)پر ترکی نے قبضہ کر رکھا تھا، ہئیت التحریر والوں کو اس کے قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ وہ صرف ’’ادلب‘‘ کے چھوٹے سے، مگر اہم، صوبے تک محدود رہے اور وہیں سے نکل کر سارے شام پر ، بعد ازاں، قابض ہو گئے۔ 
تو ترکی بھی لاعلم تھا اور جب انقلاب آ گیا تو ترکی نے ہئیت کی حمایت بلکہ سرپرستی کرنے میں بھی دیر نہ لگائی۔ 
اب ایک محور بن گیا ہے۔ شام بیچ میں ہے۔ ایک طرف ترکی ہے جس کا طویل بارڈر شام سے ملتا ہے، دوسری طرف سعودی عرب ہے جس کے اور شام کے بیچ میں اردن کا دوست ملک ہے۔ اس نئے نظام شمسی نے ترکی اور سعودی عرب دونوں کو نئی طاقت دی ہے، نیا اعتماد دیا ہے اور نئی ’’بارگیننگ پاور‘‘ دی ہے۔ یہی وجہ ہے ٹرمپ سعودی عرب کی نازبرداری پر مجبور ہوا اور اس کے واری صدقے جا رہا ہے۔ اس نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور اسرائیل کو SKIP کر دیا۔ امریکہ اسرائیل کا بیک وقت دوست، سرپرست اور غلام ہے۔ یہ ’’سکپ‘‘ محض علامیت ہے، محض سعودی عرب کو یہ دکھانے کیلئے کہ ہم تمہارے ہیں صنم۔ اسرائیل۔ بہرحال اور مزید بہرحال کچھ نالاں تو ہے۔ 
ادھر طاقت کے یہ دو مراکز ابھرے۔ ادھر بھارت کا غروب، پاکستان کا طلوع ہوا۔ پاکستان کے اس طلوع پر تو کئی سو صفحات کی تجزیاتی رپورٹ لکھی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے میرے پاس مواد ہے لیکن لکھنے کا دماغ نہیں کہ بقول غالب مضمحل ہو گئے قویٰ غالب، یعنی اب __ اتنا لکھنے کی ویسی تاب کہاں۔ 
______
عدالت نے 9 مئی کے مقدمے میں مرشد کا پولی گرافک ٹیسٹ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ 9 مئی سے پہلے مرشد نے جیلوں کو کچھ خاص ہدایات دی تھیں جن پر عمل ہوا__ ان ہدایات کی آڈیو اداروں کے پاس موجود ہے اور تصدیق کیلئے یہ ٹیسٹ ضروری ہے۔ اب جبکہ پارٹی نے کہا ہے کہ انہیں یہ فیصلہ پسند نہیں وہ عدالت بالا سے اسے رکوانے کیلئے رجوع کریں گے۔ یعنی بہت ڈر ہے کہیں مورا مرشد پکڑا نہ جائے۔

مزیدخبریں