وزارت پیٹرولیم کی عوام دوست حکمت عملی

یہ با ت بالکل درست ہے کہ سابق وزیر اعظم اپنی ڈوبتی حکومتی ناؤ کو بچانے کیلئے آخری دِنوں میں سبسڈی دیتے ہوئے پیڑول کی فی لیٹر قیمت میں دس روپے کمی کا نا چاہتے ہوئے بھی بوجھ ملکی معیشت پر ڈال گئے بلکہ آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوئے مگر یہ الگ بات کہ وہ یہ تمام تر کرنے کے باجود ایک تو اپنی حکومت بچانے میں یکسر ناکام ہوئے تو دوسرا دی گئی سبسڈی کا نزلہ وزارت پیڑولیم پر گراتے ہوئے اسے بھی مسائل سے دوچار کر گئے جس کے نتیجے کے طور پر متذکرہ سبسڈی وزارت پیڑولیم کے گلے کی ہڈی بنتی دکھائی دینے لگی تھی جسے نگلہ جا سکتا تھا نہ ہی گرایا جاسکتا مگر اب یہ امر نہایت حوصلہ افزاء اور خوش کن ہے کہ وزارت پیٹرولیم نے صورتحا ل سے نمٹنے کیلئے ایک ایسی حکمت عملی تیار کر لی ہے جس سے سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی محفوظ رہے گی یعنی سادہ لفظوں میں یہ کہ اس سے قیمتوں میں اضافے پر عوامی رد عمل سامنے نہیں آئے گا تو دوسرا آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدوں کو دوبارہ بحال کر کہ ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں وزارت خزانہ کو کافی حد تک مدد بھی فراہم کرے گی ۔
انتہائی نفیس مدلل اور سلیقے سے بات کرنے والے لیگی راہنماوفاقی وزیر مملکت پیڑولیم و قدرتی وسائل مصدق ملک جنکے نام سے ملکی سیاسی نطام اچھی طرح سے واقف ہے بلکہ عوامی سطح پر عوامی دکھ درد بانٹنے کے حوالے سے بھی کافی شہرت کے حامل ہیںکووزارت پیڑولیم کی زمہ داریاں سونپا جانا اس کی صلاحتیوں کا اعتراف ہی نہیں بلکہ داد دینے کے بھی مترادف قرار دیا جاسکتا ہے سے پچھلے دِنوں اُن کے دفتر میں ملاقات ہوئی جس میں پیڑولیم مصنوعات میں ممکنہ اضافے سے ممکنہ طور پید ا ہونے والی صورتحال پر مختصراً بات چیت بھی ہوئی جس میںانہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی اِن ہدایات کی روشنی میں کہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے اثر سے عام آدمی کو محفوظ رکھا جائے کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کے پاس تین آپشن ہیں جن میں سے اول یہ کہ ملک بھر کے پیڑول پمپوں پر موٹر سائیکل سواروں کو پیڑول ڈلوانے سے پہلے بائیومیڑک طریقے سے رجسٹر کیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں جو پیٹرول فراہم کیا جائے گا وہ سبسڈائز تو ہوگا مگر اس کی سبسڈی وزارت پیٹرولیم نہیں بلکہ ایک او ر پروگرام کے زریعے دی جائے گی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر اگر فی لیٹر قیمت میں چالیس روپے کا اضافہ ہوا ہے تو اس میں سے دس روپے پیٹرول کی مد میں پندرہ روپے اشیاء خورونوش اور پندرہ روپے کیش کی صورت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے زریعے فراہم کی جائے گی اور عوام کو پیٹرول اگر 188 روپے لیٹر ہے تو وہ خریدیں گے تو 188روپے ہی مگر بڑھائے گئے چالیس روپے کی رعایت انہیں دوسرے طریقے سے مل جائے گی لہذا ایک طرح سے پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے سے وہ ہرگز متاثر نہیں ہونگے ۔یہاں انہوں نے یہ بھی واضع کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایات کے مطابق یہ رعایت عام آدمی یعنی موٹر سائیکل سواروںکو حاصل ہوگی کارسواروں ،پراڈو سواروں کو نہیں ۔
وزارت پیٹرولیم کے تینوں آپشنز پر غور کیا جائے تو گو کہ یہ رعایت عام آدمی کیلئے فراہم کی جائے گی اور جس کی ہدایات بھی وزیر اعظم کی طرف سے جاری کی گئیں ہیں بے شک کارآمد ہو ں گی اور اس سے عام آدمی پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا مگر یہ امر بھی اپنی جگہ حقیقت رکھتا ہے کہ اس وقت ملک میں بات اگر ہو رہی ہے تو اشرافیہ کی ہی ہوتی ہے یا پھر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے والے غریبوں کی ہی ہوتی ہے مگر اِن دونوں ہستیوں کے بیچوں بیچ زندگی گذارنے والے وہ بھی بمشکل متوسط طبقے کی با ت شا ذ و نازر ہی سننے میں آتی ہے ۔ہماری مراد ایف ایکس مہران یا پھر زیادہ سے زیادہ کلٹس گاڑیاں چلانے والوں سے ہے جن پر بھی اگر نظر ِ کرم کر لی جائے تو یقینا اُن کی دعائیں بھی شامل حال ہو سکتیں ہیں ۔بے شک یہ اٹھارہ سو سی سی یا دوہزار سی سی والے بھلے شامل نہ ہی کئے جائیں مگر بات ہزار سی سی تک ضرو ر جانی چاہیے تب ہی قابل قبول سمجھی جاسکے گی ۔ وزارت پیڑولیم و قدرتی وسائل کے دائرہ کار و اہمیت پر نظر ڈالی جائے تو یہ وہ وزارت ہے جس پر وزارت خزانہ کے بعد ملکی ترقی کا دارومدار کافی حد تک ہوتا ہے ۔پیڑولیم کی قیمتیں مستحکم رہیں گی تو مہنگائی بھی قابو میں رہے گی اور اگر پیٹرولیم قیمتوں می اضافہ ہوگا تو ظاہری سی بات ہے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا اور یہی وہ اِک مہنگائی ہی ہے جو حکومتوں کو بھی مستحکم و غیر مستحکم کرنے کی وجہ بنا کرتی ہے ۔یہ پی ٹی آئی حکومت کا غیر مقبول ہونے کی وجہ کیا تھی ،یہی مہنگائی ہی تھی نا کہ جو اسے لے ڈوبی ۔۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں مہنگائی اسلئے بڑھی کہ اس پاس کوئی معاشی ٹیم ہی نہیں تھی نا ہی کوئی انتظامی ٹیم تھی جبکہ اب کی تاز ہ ترین صورتحال کا مشاہدہ کیا جائے تو اس میں ہمیں عوام کے دکھوں اور تکالیف کا مداوا ہوتا نظر آرہاہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ موجود ہ مخلوط حکومت میں اگر پیڑولیم میں مصدق ملک کوشاں دکھائی دیتے ہیں تو وزارت خزانہ میں اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل رات دن ایک کئے ہوئے ہیں جبکہ بیک اپ میں نوید قمر اور دو ایک نام اور بھی ہیں جنہوں یہاں فی القوقت بوجوہ ظاہر نہیں کیا جاسکتا مگر کہنے کا مطلب یہی ہے کہ پی پی پی مسلم لیگ ن ملک کی وہ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جو حکومتیں چلانے کا تجربہ ہی نہیں صلاحیت بھی رکھتی ہیںبلکہ ساتھ ساتھ معاشی و انتظامی ٹیمیںبھی رکھتیں ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ معاشیات کی تیز رفتاریوں سے بلد یہ ٹیم نہ صرف ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہو جائے گی بلکہ عوامی توقعات کو بھی پیش نظر رکھے گی جس سے وزیراعظم شہباز شریف کے وژن کے مطابق اُ ن کے کامیاب پاکستان پروگرام کا خواب بھی پورا ہونے میں یقینی مدد ملے گی۔