’’ عالمی گرو‘‘کا حقیقی چہرہ
کسی وقت میں یہ رواج عام تھا کہ پرانے برتنوں پر قلعی کر کے ان کو نیا جیسا کر دیا جاتا تھا، اب بھی کئی علاقوں میں یہ عمل دہرایا جاتا ہے۔ کچھ دنوں تک رنگ برقرار رہتا ہے مگر پھر برتن کے کثرت استعمال کی وجہ سے قلعی اتر جاتی اور برتن اپنی اصل شکل میں واپس آ جاتا ہے۔ اسی طرح مصنوعی طلائی زیورات یعنی آرٹیفیشل جیولری بھی اصل زیورات کی مانند چمکتے دمکتے ہیں مگر یہ تصنع وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور حقیقی شکل سامنے آ جاتی ہے۔ یہی صورتحال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہے۔ جب موصوف اکتوبر 2001مں گجرات کے وزیراعلیٰ بنے تو انھوں نے اپنے امیج پر قلعی کروائی اور تیرہ سال تک بحیثیت وزیراعلیٰ اپنا یہ مصنوعی امیج فروخت کرتے رہے۔ انھوں نے اپنا تاثر ایک منتظم کے طور پر دیا اور بھارتی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ ترقی کے دیوتا ہیں۔ گجرات ماڈل کا خوب پراپیگنڈہ کیا گیا اور نتیجتاً 2014 میں وہ واضح اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ 2019 میں انکی شخصیت پر چڑھی قلعی اترنے لگی تو پلوامہ کا واقعہ کرا دیا جس کے نتیجے میں آر ایس ایس اور بی جے پی ایک بار پھر برسر اقتدار آ گئے ۔
ممکنہ طور پر مودی اپنی اس مصنوعی شخصیت کو کچھ عرصہ اور چلانے میں شاید کامیاب ہو جاتے مگر کرونا وائرس کی بدترین صورتحال، کسان احتجاج اور مغربی بنگال کی واضح شکست نے انکی اصل حقیقت لوگوں پر واضح کر دی۔ اس کے باوجود موصوف دیدہ دلیری سے یہ دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ بھارت دراصل تمام ممالک کا ’’ عالمی اور روحانی گرو‘‘ ہے اور اب ہندوستان کی عظمت رفتہ بحال ہوتی جا رہی ہے۔ انٹرنیشنل سائنس کانفرنس میں بھی شریمان یہ بے سر و پا دعوے بڑی رغبت سے کرتے آئے ہیں کہ 5 ہزار سال پہلے بھارت دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں ہوائی جہاز نما اڑن کھٹولے عام تھے اور ہوائی جہاز کا آئیڈیا بھی انہی اڑن کھٹولوں سے مستعار لیا گیا، اسی لئے ہوائی جہاز کی ایجاد میں اصل کریڈٹ ہندوستان کو دیا جانا چاہیے۔
یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارتی حکمرانوں خصوصاً BJP نے کوئی بھی چنائو جیتنے کیلئے ایک آسان اور تیر بہ ہدف نسخہ ایجاد کر رکھا ہے اور تاحال انھیں اس کے خاطر خواہ نتائج بھی مل رہے ہیں۔ جب 26 مئی 2014 کو بھارتی لوک سبھا کے نتائج سامنے آئے تو BJP واضح اکثریت سے جیت چکی تھی اور اس کے بعد سے تو یہ فارمولا ایک طرز عمل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اب مودی اپنے اسی فارمولے کی وجہ سے 2022میں اتر کھنڈ،یوپی،منی پور اور گوا میں بھاری جیت گئے۔ اب سال رواں کے آخر میں گجرات اور ہماچل پردیش میں صوبائی انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں تو سنجیدہ حلقوں کو بجا طور پر یہ خدشہ محسوس ہونے لگ گیا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے دہلی یا بھارت کے کسی بھی حصے میں تخریب کاری کا کوئی واقعہ سر انجام دینے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں تا کہ اس کے نتیجے میں ایک نئی انتخابی فتح حاصل کی جا سکے۔ اس سے مودی سرکار کو دو فائدے حاصل ہوں گے، ایک توانتخابات میں اس کی جیت کے امکانات قدرے بڑھ جائیں گے تو دوسری جانب ہندوستانی عوام کی توجہ کرونا وائرس اور بلیک فنگس وغیرہ کی طرف سے وقتی طور پر ہٹ جائے گی اور ہمیشہ کی طرح اس واقعے کی ذمہ داری بھی پاکستان کے کندھوں پر ڈال کر مودی اور اس کے ہمنوائوں کا ٹولہ بآسانی سرخرو ہو جائے گا۔ بہرحال بھارت ’’پلوامہ ٹو‘‘ کی غالباً حتمی منصوبہ سازی مکمل کر چکا ہے اور اس کی جزیات تک طے کر لی گئی نظر آتی ہیں۔ اسی لئے بھارتی میڈیا کو یہ ’’ٹاسک‘‘ دیا جا چکا ہے کہ وہ پاکستان سے ’’مبینہ‘‘ تخریب کاروں کی بھارت میں آمد کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں اور اس تاثر کو مزید پختہ کرتے چلے جائیں۔ حالانکہ کسے علم نہیں کہ 14 فروری 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے پلوامہ ضلع میں مبینہ خودکش حملے کے نتیجے میں 40 سے زائد بھارتی فوجی مارے گئے تھے، بھارتی حکومت نے اپنی سابقہ روش کے عین مطابق اس کی ذمہ داری بھی پاکستان کے کندھوں پر ڈال دی تھی، مگر جھوٹ کے پائوں کہاں ہوتے ہیں؟ خود کئی بھارتی حلقوں نے اس بات کا ببانگِ دہل اظہار کیا کہ بھارت میں پاکستان کی جانب سے کوئی دہشتگردانہ کارروائی نہیں ہوئی بلکہ یہ تمام ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھا۔
بہرکیف 2022 کے شروع میں ہونیوالے اترپردیش کے انتخابات کو 2024 کے عام انتخابات کا ’’سیمی فائنل‘‘قرار دیا گیا تھا۔ ان میں برتری کیلئے بی جے پی ہر حد تک جانے کو تیار ہے، اس تناظر میں جنرل سیکرٹری آر ایس ایس دتریا ہوسابلے نے الیکشن کو ’’آپریشن گجرات‘‘ کا نام دیتے تاکید کی ہے کہ ہندو راشٹر کے قیام کیلئے گجرات کی طرز پر بی جے پی کو اترپردیش میں 15 سے 20 سال برسراقتدار رہنا چاہیے تا ہم کرونا کی موجودہ صورتحال کے باعث بی جے پی کی ہوا بھارت خصوصاً اترپردیش میں بری طرح اکھڑ گئی تھی اس لیے اس میں بہتری لائی جا سکے۔ اسی سلسلے میں آنے والے دنوں میں بھارتی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ آر ایس ایس گجرات اور ہماچل کی کابینہ میں آمدہ انتخابات کے تناظر میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ انتہا پسند تنظیم کی جانب سے ہمیشہ کی مانند یہی تجویز دی گئی ہے کہ مسلم کش فسادات اور پاکستان کیخلاف کوئی مہم جوئی بی جے پی کیلئے انتخابات کی راہ ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق گجرات اور ہماچل انتخابات میں کامیابی کیلئے آر ایس ایس اور بی جے پی پاکستان کیخلاف کسی بھی اشتعال انگیزی سے بھی گریز نہیں کریگی ۔اسی پس منظر میں بھارت کے مختلف علاقوں میں ہونے والے بھارتی مسلمانوں کے خلاف جاری اشتعال انگیزی کے حالیہ واقعات کو بھی دیکھا جائے تو آنے والے دنوں کے منظر نامے کو بخوبی بھانپا جا سکتا ہے