جانے کے بعد
ایک گونگی لڑکی کی شادی نہیں ہو رہی تھی پھر اچانک ایسا سبب بنا کہ چٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا سین ہو گیا ۔ وہ بڑی خوش تھی اس کے مارے خوشی کے زمین پاوں پر نہیں لگ رہے تھے۔ اس کی سکھیاں بھی بہت خوش تھیں ۔ سسرال کا گھر کافی بڑا تھا ۔انھوں نے نئی نویلی دلہن کو آتے ہی کام پر لگا دیا۔ دن بھر کام نے اس کی ساری خوشیاں ہوا کر دیں۔ کوئی ایک ماہ بعد وہ میکے آئی اور آتے ہی زیور اتار کر پھینکنے لگی ۔نئے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ پرانے کپڑے پہن کر بتانے لگی کہ میرے گلے میں کیا مصیبت ڈال دی ہے۔ اس شادی سے تو میں ویسے ہی بہتر تھی، ایسا ہی حال کچھ ہماری نئی نویلی حکومت کا ہے۔ حالانکہ ملک بھر کے نامی گرامی کاریگر اس میں اکھٹے ہیں لیکن چند دنوں کے بعد ہی ہوش ٹھکانے آگئے ہیں۔ اگر برا نہ منائیں تو نانی یاد آ گئی ہے۔ اب ان کے پاس وقت کم اور کرنے والے کام بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے حکومت میں شامل اکابرین اپنے مقدمات میں ریلیف کا راستہ نکال رہے ہیں۔ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دلدل سے نکلنے کے لیے فیس سیونگ کی جا رہی ہے ۔
مسلم لیگ نون کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح الیکشن سے قبل میاں نواز شریف کو وطن واپس لا کر ان کو آزاد کروا کر میدان میں اتارا جائے، تحریک انصاف کے جلسے جلوسوں کا مقابلہ وہ خود ہی کریں۔ انسانی نفسیات ہے کہ گزرا ہوا وقت اچھا لگتا ہے لیکن یہ بھی قرب قیامت کی نشانیاں ہیں کہ افراتفری بڑھ رہی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے دن گھنٹوں کی طرح ، ہفتے دنوں کی طرح، مہینے ہفتوں کی طرح اور سال مہینوں کی طرح گزر رہے ہیں۔ اجتماعیت کی جگہ انفرادیت لے رہی ہے۔ گزری ہوئی یادیں حسین جبکہ حال مشکل لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر کہتے ہیں تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے لوگوں نے سروں پر بانہیں رکھی ہوئی تھیں وہ واویلا ہو رہا تھا کہ مہنگائی مار گئی جینا دوبھر ہو گیا نااہل اور نالائق حکومت کے طعنے زبان زد عام تھے۔ حالانکہ عمران خان بار بار کہہ رہا تھا کہ پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر آئی ہوئی ہے ۔پٹرول دنیا میں سستا ترین پاکستان میں ہے کھانے پینے کی اشیاء بھی دنیا کی نسبت سستی ہیں لیکن کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا اب جبکہ بتایا جا رہا ہے کہ فیول کی قیمتوں میں 40 سے 70 روپے اضافہ ناگزیر ہے تو خوف کے مارے جان نکلتی جا رہی ہے۔ مہنگے فیول کی وجہ سے بجلی کی ترسیل ممکن نہیں ہو پا رہی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اچانک ہوش ربا اضافہ نے ہمیں حواس باختہ کر دیا ہے ۔معاشرے میں باں باں ہو رہی ہے اب شادی کا سواد چکھنے کے بعد یاد آرہا ہے کہ اس شادی سے ہم ویسے ہی ٹھیک تھے۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ گاڑی ٹریک پر چل رہی ہو اور کوئی مسئلہ آ جائے تو وہ کئی کلومیٹر تک دوڑتی چلی جاتی ہے لیکن اگر بریک لگ جائے اور بریک بھی ناہموار جگہ پر لگے تو گاڑی کو دوبارہ سپیڈ پکڑنے میں بڑا زور لگتا ہے۔ ہم چلتی گاڑی کو خود کیچڑ میں پھنسا بیٹھے ہیں اور اب یاد کر رہے ہیں کہ وہ پہلے والا ڈرائیور اچھا تھا۔
یہ تو تازہ ترین واقعہ ہے اگر ماضی میں جھانکا جائے تو ہم نے ایوب خان کو کتا کتا کہہ کر نکال دیا وہ عزت دار خاندانی بندہ تھا برداشت نہ کر سکا اور خود ہی اقتدار سے باہر ہو گیا حالانکہ پاکستان کی ترقی کی بنیاد انھوں نے رکھی تھی۔ 1965 کا عظیم معرکہ لڑنے کے باوجود ملک میں ترقی کا ایک سنہرا دور تھا ۔پاکستان ایک مضبوط ملک بن کر ابھر رہا تھا ۔دونوں بڑے ڈیم اس دور میں بنے تمام انڈسٹری اس دور میں لگی ۔زمینوں کی آباد کاری نہروں ، ڈیمز اور بیراجز کی تعمیر اس دور میں ہوئی ۔ایوب خان کو نکالنے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ ہم کتنا بڑا گناہ کر بیٹھے ہیں۔ اسی گناہ کی وجہ سے ہم اپنا وجود بھی برقرار نہ رکھ سکے پھر جب احساس ہوا تو ہم آج تک ٹرکوں کے پیچھے ایوب خان کی تصویر لگا کر تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد کا راگ الاپ رہے ہیں۔ پھر اللہ نے جنوبی ایشیا میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہیرا پیدا کیا جسے صحیح طور لیڈر کہا جاسکتا ہے جو دور اندیش بھی تھا جس کے پاس ویژن بھی تھا۔ جس میں قوم کو لے کر چلنے کی اہلیت بھی تھی۔ لیکن ڈالروں کی چمک نے اسے بھی پھانسی کے پھندے تک پہنچا کے چھوڑا۔ کہاں گئی وہ نو ستاروں کی تحریک پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد آج تک ہم ذوالفقار علی بھٹو کو کھونے کا رونا رو رہے ہیں ۔بے نظیر بھٹو کے حوالے سے میں بات نہیں کرنا چاہتا کہ اس بارے میں کئی تلخ حقائق ہیں جنھیں راز ہی رہنے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے لیکن ہم نے ہر جانے والے کی قدر اس کے جانے کے بعد کی ہے۔ ہماری قوم بڑی آسانی کے ساتھ سازشوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔ ہم مستقل مزاج نہیں۔ ہم روز ایک چہرہ دیکھ دیکھ کر اکتا جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ساری پالیسیاں سارے کام ڈنگ ٹپاو ہیں۔ نہ ہمارے منصوبے لانگ ٹرم ہیں نہ ہمارے اندر تسلسل ہے ۔
ہم کچھ عرصہ کے بعد پرانی سلیٹ کی تحریر مٹا کر نئی تحریر لکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ جب تک ہم مستقل مزاجی کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے بہتری نہیں آسکتی۔ خدارا لاابالی پن سے باہر نکل آئیں ،مستحکم حالات کے لیے قومی مزاج میں ٹھہراوٗ بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے ادارے اور سسٹم کمزور جبکہ شخصیات مضبوط ہیں ۔ہماری شخصیات سسٹم کو فالو کرنے اور سسٹم میں رہنے کی بجائے سسٹم کو اپنے تابع بنانے کے چکروں میں پڑ جاتی ہیں۔ جب تک سسٹم مضبوط نہیں ہو گا شخصیات من مانی کرتی رہیں گی ۔